یحییٰ بن سعید اور ابن ابی عدی نے سلیمان تیمی سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "اللہ عزوجل فرماتا ہے: جب میرا بندہ ایک بالشت میرے قریب آتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب آتا ہوں اور جب وہ ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے تو میں دونوں ہاتھوں کی لمبائی کے برابر اس کے قریب آتا ہوں اور جب وہ چل کر میرے پاس آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کے پاس جاتا ہوں۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا:"اللہ عزوجل کا ارشاد ہے، جب میرا بندہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے، میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جب وہ ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے، میں اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جب وہ میری طرف چلتے ہوئے آتا ہے۔میں اس کے پاس دوڑ کر آتا ہوں۔"
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7536
7536. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ ﷺ اپنے رب سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”جب بندہ مجھ سے ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور جب بندہ ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے تو میں اس کے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جب وہ میرے پاس پیدل چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7536]
حدیث حاشیہ: حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہےغرض یہ ہےکہ اس کے عمل سےکہیں زیادہ ثواب دیتا ہوں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7536
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7537
7537. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے وہ سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کئی بار نبی ﷺ کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا: ”(اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:) جب بندہ ایک باشت میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور جب وہ ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کے قریب جاتا ہوں۔“(راوی حدیث) معتمر نے کہا: میں نے اپنے والد سے سنا، (انہوں نے کہا:) میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سنا وہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں وہ نبی ﷺ سے آپ اپنے رب عزوجل سے روایت کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7537]
حدیث حاشیہ: 1۔ بندہ جب اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ اپنے بدن کی حرکت سے اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہو بلکہ وہ انابت، رجوع الی اللہ، دل کی توجہ، اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”بندہ بحالت سجدہ اپنے رب کے بہت قریب ہوتا ہے۔ “(صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث: 1083(482) اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بندے کے قریب ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش سے نیچے اتر کر بندے کے قریب ہوتا ہے بلکہ وہ عرش پر مستوی رہتے ہوئے اپنے بندے کے قریب ہوتا ہے۔ وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا کلام بیان کیا ہے، خواہ وہ کلام حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے تھا یا براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا القا ہوا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس کلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے سماعت کیا اور اس امر کی تصدیق کی کہ واقعی یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان کر رہے ہیں۔ اس وضاحت سے روایت اور مروی، نیز تلاوت اور متلو میں فرق واضح ہوا۔ وھو المقصود۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7537