عبداللہ بن ادریس نے اسماعیل بن ابی خالد سے، انہوں نے قیس بن ابی حازم سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: ہم حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اس وقت ان کے پیٹ پر (علاج کے لئے) سات جگہ (تپتی ہوئی دھات سے) داغ لگائے گئے تھے۔ انہوں نے کہا: اگر یہ نہ ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں موت کی دعا سے منع فرمایا تھا، تو میں اس (موت) کی دعا کرتا۔
قیس بن ابی حازم رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں ہم حضرت خباب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ پیٹ پر سات داغ لگوا چکے تھے تو انھوں نے کہا، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے نہ روکا ہوتا تو میں اس کی دعا کرتا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6817
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیماری اور تکلیف کی شدت کی بنا پر دعا کرنا چاہتے تھے، لیکن بخاری شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے، زندگی کے آخری دور میں اللہ تعالیٰ نے انہیں مال و دولت کی فراوانی عطاء فرمائی تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ شاید یہ دنیوی مصائب و شدائد جھیلنے کا بدلہ مل رہا ہے، اس طرح آخرت کے ثواب میں کمی واقع ہو جائے گی اور وہ سارا ثواب آخرت میں سمیٹنا چاہتے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6817
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1824
´موت کی دعا کا حکم۔` قیس بن ابی حازم کہتے ہیں میں خباب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، انہوں نے اپنے پیٹ میں سات داغ لگوا رکھے تھے وہ کہنے لگے: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں موت کی دعا سے نہ روکا ہوتا تو میں (شدت تکلیف سے) اس کی دعا کرتا۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1824]
1824۔ اردو حاشیہ: ➊ اس دور میں آگ کے ساتھ داغنا بھی بعض بیماریوں کا علاج سمجھا جاتا تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اچھا نہیں سمجھا کیونکہ یہ انتہائی اذیت ناک ہے۔ انتہائی مجبوری کے وقت ہی جائز ہے۔ ➋ جس طرح موت کی خواہش، تمنا اور دعا جائز نہیں، اسی طرح موت کی کوشش، یعنی خودکشی بھی جائز نہیں ہے، اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے کیونکہ انسان اپنی زندگی یا جسم و روح کا مالک نہیں بلکہ یہ تو اس کے پاس امانت ہے اور امانت کی حفاظت کی جاتی ہے، اسے ضائع نہیں کیا جاتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1824
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4163
´گھر بنانے اور اجاڑنے کا بیان۔` حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ ہم خباب رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے آئے، تو آپ کہنے لگے کہ میرا مرض طویل ہو گیا ہے، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ ”تم موت کی تمنا نہ کرو“ تو میں ضرور اس کی آرزو کرتا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندے کو ہر خرچ میں ثواب ملتا ہے سوائے مٹی میں خرچ کرنے کے“، یا فرمایا: ”عمارت میں خرچ کرنے کا ثواب نہیں ملتا ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4163]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا مسلمان پر حق ہے۔
(2) موت کی دعا کرنا منع ہے بلکہ اللہ سے مصیبت دور کرنے کی دعا کرنی چاہیے۔
(3) بندہ اپنی جان اور صحت کے لیے جو خوراک استعمال کرتا ہے یا بیوی بچوں وغیرہ کو خوراک مہیا کرتا ہے اور ان کی دوسری لازمی ضروریات پوری کرتا ہے یہ صرف اس کا اخلاقی فرض ہی نہیں بلکہ دینی فریضہ بھی ہے جس پر وہ ثواب کامستحق ہے۔
(2) رہائش کے لیے گھر پر اس حد تک خرچ کرنا چاہیے جس سے ضرورت پوری ہو جائے۔ زیب و زینت پر رقم ضائع کرنا مناسب نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4163
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6349
6349. حضرت قیس سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں حضرت خباب بن ارت ؓ کے پاس آیا جبکہ انہوں نے بیماری کی وجہ سے سات داغ لگوا رکھے تھے انہوں نےفرمایا: اگر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں موت مانگنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں ضرور موت کی دعا کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6349]
حدیث حاشیہ: شدت تکلیف کی وجہ سے انہوں نے یہ فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ بہر حال موت کی دعا مانگنا منع ہے۔ بلکہ طول عمر کی دعا کرنا بہتر ہے جس سے سعادت دارین حاصل ہو اسی لئے نیکو کار لمبی عمروں والے قیامت میں درجات کے اندر شہداء سے بھی آگے بڑھ جائیں گے۔ جعلنا اللہ منھم امین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6349
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6430
6430. حضرت قیس کہتے ہیں کہ میں نے حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، انھوں نے (بیماری کیوجہ سے) اس دن اپنے پیٹ پر سات داغ لگائے تھے، انھوں نے کہا: اگر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں موت مانگنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں ا پنے لیے موت کی دعا ضرور کرتا۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین گزر گئے لیکن دنیا نے ان کے ثواب میں کچھ کمی نہ کی، البتہ ہم نے دنیا میں اس قدر مال حاصل کیا کہ مٹی کے سوا اس کے لیے اور کوئی جگہ نہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6430]
حدیث حاشیہ: پہلے گزرنے والے صحابہ کرام فتوحات کا آرام نہ پانے والے ساری نیکیاں ساتھ لے گئے۔ بعد والوں نے فتوحات سے دنیاوی آرام اتنا حاصل کیا کہ بڑے بڑے مکانات کی تعمیر کر گئے اسی پر اشارہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6430
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7234
7234. حضرت قیس سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت خباب بن ارتؓ کے پاس ان کی تیمار داری کے لیے حاضر ہوئے جبکہ انہوں نے سات داغ لگوائے تھے‘ انہوں نے فرمایا: اگر رسول اللہﷺ نے ہمیں موت کی تمنا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں ضرور موت کی دعا کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7234]
حدیث حاشیہ: موت کی تمنا اس لیے ممنوع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی موت کا وقت مقرر کررکھا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ موت کی تمنا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر تسلیم نہ کرنا بلکہ اس سے اظہار ناراضی کرنا ہے۔ ایک حدیث میں دنیوی مصیبتوں کی وجہ سے موت کی تمنا کو قابل مذمت قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی کسی کی قبر کے پاس سے گزرے گا توکہے گا: کاش! میں اس صاحب قبر کی جگہ پر ہوتا اور ایسا کہنا کسی دین داری کے خطرے کے پیش نظر نہیں ہوگا بلکہ دنیاوی بلاؤں اورمصیبتوں سے گھبرا کر ایساکہے گا۔ “(صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7302(157)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7234