عبداللہ بن نمیر ہمدانی، ابومعاویہ اور وکیع نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں اعمش نے زید بن وہب سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ سچ بتاتے ہیں اور انہیں (وحی کے ذریعے سے) سچ بتایا جاتا ہے نے فرمایا: "تم میں سے ہر ایک شخص کا مادہ تخلیق چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں اکٹھا کیا جاتا ہے، پھر وہ اتنی مدت (چالیس دن) کے لیے علقہ (جونک کی طرح رحم کی دیوار کے ساتھ چپکا ہوا) رہتا ہے، پھر اتنی ہی مدت کے لیے مُضغہ کی شکل میں رہتا ہے (جس میں ریڑھ کی ہڈی کے نشانات دانت سے چبائے جانے کے نشانات سے مشابہ ہوتے ہیں۔) پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو (پانچویں مہینے نیوروسیل، یعنی دماغ کی تخلیق ہو جانے کے بعد) اس میں روح پھونکتا ہے۔ اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا رزق، اس کی عمر، اس کا عمل اور یہ کہ وہ خوش نصیب ہو گا یا بدنصیب، لکھ لیا جائے۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں! تم میں سے کوئی ایک شخص اہل جنت کے سے عمل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کے اور جنت کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو (اللہ کے علم کے مطابق) لکھا ہوا اس پر غالب آ جاتا ہے تو وہ اہل جہنم کا عمل کر لیتا ہے اور اس (جہنم) میں داخل ہو جاتا ہے۔ اور تم میں سے ایک شخص اہل جہنم کے سے عمل کرتا رہتا ہے حتی کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو (اللہ کے علم کے مطابق) لکھا ہوا اس پر غالب آ جاتا ہے اور وہ اہل جنت کا عمل کر لیتا ہے اور اس (جنت) میں داخل ہو جاتا ہے۔"
حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صادق اور مصدوق ہیں، نے بتایا "تم میں سے ہر ایک کا مادہ تخلیق چالیس دن اپنی ماں کے پیٹ میں نطفہ کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے دنوں میں منجمد خون کی شکل اختیار کرتا ہے، پھر اتنی ہی مدت میں گوشت کے لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے، پھر فرشتے کو بھیجا جاتا ہے اور وہ اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے، اس کا رزق، اس کی مدت حیات، اس کے اعمال اور وہ نیک بخت ہے یا بد بخت ہے لکھ دیا جاتا ہے، اس ذات کی قسم، جس کے سواکوئی لائق بندگی نہیں ہے، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص جنتیوں والے عمل کرتا رہتا ہے،حتی کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر نوشتہ اس پر غالب آجاتا ہے تو وہ دوزخیوں والے عمل کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے، (اس طرح کبھی ایسا ہوتا ہے) تم میں سے کوئی شخص دوزخیوں والے عمل کرتا رہتا ہے،یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایک ہاتھ فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر اس پر نوشتہ تقدیر غالب آتا ہے، سو وہ جنتیوں والے عمل کرنے لگتا ہے اور انجام کا راس میں داخل ہو جاتا ہے۔"