خالد نے ابومعشر سے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے علقمہ اور اسود سے روایت کی کہ ایک آدمی حضرت عائشہ ؓ کے پاس ٹھہرا، صبح کو وہ اپنا کپڑا دھو رہا تھا توعائشہ ؓ نے فرمایا: تیرے لیے کافی تھا کہ اگر تو نے کچھ دیکھا تھا تو اس کی جگہ کو دھودیتا اور اگر تو نے اسے نہیں دیکھا تو اس کے اردگرد (تک) پانی چھڑک دیتا۔ میں نے اپنے آپ کو اس حال میں دیکھا کہ میں اسے (مادہ منویہ کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےکپڑے سے اچھی طرح کھرچتی تھی، پھر آپ اس کپڑے میں نماز پڑھتے تھے۔
علقمہ اور اسود بیان کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاں ایک مہمان ٹھہرا، صبح وہ اپنا کپڑا دھو رہا تھا، تو عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا: تیرے لیے کافی تھا کہ اگر تو نے اسے دیکھا تھا، تو اس کی جگہ دھو دیتا اور اگر تو نے اسے نہیں دیکھا، تو اس کے ارد گرد پانی چھڑک دیتا، میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا کہ میں منی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے اچھی طرح کھرچ دیتی (کیونکہ وہ خشک ہو چکی تھی)، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کپڑے میں نماز پڑھتے تھے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 668
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: اُفَرِّكُهُ فَرْكًا: میں اس کو کھرچ دیتی۔ کہا جاتا ہے”فَرَّكَ الشَّيْئَ عَنِ الثَّوْب“ کا معنی ہوتا ہے، کسی چیز کو رگڑیا کھرچ کر کپڑے سے زائل کر دینا، اور یہ تبھی ممکن ہے، جب وہ چیز ایک جگہ جمی ہو۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر منی کپڑے پر لگ جائے تو سارے کپڑے کو دھونا ضروری نہیں ہے صرف اتنی جگہ دھو ڈالنا جہاں منی لگی ہو کافی ہے، اگر منی نظر نہ آئے محض شک پڑ جائے تو کپڑ ے پر چھینٹے مار دینا ہی کافی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 668
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث536
´منی لگے ہوئے کپڑے کا حکم۔` عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے سلیمان بن یسار سے سوال کیا: اگر کپڑے میں منی لگ جائے تو ہم صرف اتنا ہی حصہ دھوئیں یا پورے کپڑے کو؟ سلیمان نے کہا: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میں منی لگ جاتی تو اس حصے کو دھو لیتے، پھر اسی کو پہن کر نماز کے لیے تشریف لے جاتے، اور میں اس کپڑے میں دھونے کا نشان دیکھتی تھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 536]
اردو حاشہ: (1) اگر کپڑے کے ایک حصے پر نجاست لگ جائےتو پورا کپڑادھونا ضروری نہیں صرف اتنا حصہ دھو لینا کافی ہے جس سے نجاست دور ہوجائے۔
(2) مادہ منویہ اگر گیلا ہوتو کپڑے کو دھونا چاہیے۔ خشک ہوتو کھرچ ڈالنا کافی ہے پھر کپڑے کو رگڑ کر جھاڑ دے۔
(3) یہ دھونا یا کھرچنا نظافت وصفائی کے لیے ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 536
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 116
´کپڑے میں منی لگ جانے کا بیان۔` ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے یہاں ایک مہمان آیا تو انہوں نے اسے (اوڑھنے کے لیے) اسے ایک زرد چادر دینے کا حکم دیا۔ وہ اس میں سویا تو اسے احتلام ہو گیا، ایسے ہی بھیجنے میں کہ اس میں احتلام کا اثر ہے اسے شرم محسوس ہوئی، چنانچہ اس نے اسے پانی سے دھو کر بھیجا، تو عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: اس نے ہمارا کپڑا کیوں خراب کر دیا؟ اسے اپنی انگلیوں سے کھرچ دیتا، بس اتنا کافی تھا، بسا اوقات میں اپنی انگلیوں سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے کپڑے سے اسے کھرچ دیتی تھی۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 116]
اردو حاشہ: 1؎: یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ منی کو کپڑے سے دھونا واجب نہیں خشک ہو تو اسے کھرج دینے اور تر ہو تو کسی چیز سے صاف کر دینے سے کپڑا پاک ہوجاتا ہے، منی پاک ہے یا ناپاک اس مسئلہ میں علماء میں اختلاف ہے، امام شافعی، داودظاہری اور امام احمد کی رائے ہے کہ منی ناک کے پانی اور منہ کے لعاب کی طرح پاک ہے، صحابہ کرام میں سے علی، سعد بن ابی وقاص، ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مسلک ہے اور دلائل کی روشنی میں یہی قول راجح ہے، شیخ الإسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم کا بھی یہی مسلک ہے شیخ الإسلام کا فتوی ”الفتاوی الکبریٰ“ میں مفصل موجود ہے، جسے ابن القیم نے ”بدائع النوائد“ میں بعض فقہاء کہہ کر ذکر کیا ہے اور جن حدیثوں میں منی دھونے کا تذکرہ ہے وہ بطور نظافت کے ہے، وجوب کے نہیں (دیکھئے اگلی حدیث کے تحت امام ترمذی کی توجیہ)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 116
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 674
عبداللہ بن شہاب خولانی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہمان تھا، مجھے اپنے کپڑوں میں احتلام آ گیا، تو میں نے اپنے دونوں کپڑے پانی میں ڈبو دیئے، مجھے سیّدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک کنیز (لونڈی) نے دیکھ لیا، اور انہیں بتا دیا، تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے میری طرف پیغام بھیجا، اور فرمایا: تجھے اپنے کپڑوں کے ساتھ یہ معاملہ کرنے پر کس بات نے ابھارا؟ میں نے جواب دیا، میں نے نیند میں وہ چیز دیکھی جو سونے والا اپنی نیند میں دیکھتا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:674]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے اگر منی گیلی (تر) ہو تو اسے دھویا جائے گا اور اگر خشک ہو تو محض کھرچ دینا ہی کافی ہے دھونا ضروری نہیں ہے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی نظریہ ہے لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک منی خشک ہو یا ترہر صورت میں اسے دھویا جائے گا، لیکن منی کی طہارت یا نجاست کے بارے میں ائمہ میں اختلاف ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے صحیح ترروایت کی رو سے منی پاک ہے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃاللہ علیبہ کے نزدیک پلید ہے۔ (شرح نووی 1/ 140) ظاہر ہے یہ محض ایک علمی اور فکری بحث ہے وگرنہ اس کے تر ہونے کی صورت میں اس کے دھونے میں کوئی اختلاف نہیں، اور انسان طبعی طور پر انسانی فضلات اگرکپڑے کو لگے ہوں تو ان سے کراہت محسوس کرتا ہے وہ ناک کی بینی اور تھوک ہو یا خون اور منی۔