بکیر بن اشج سے روایت ہے کہ ہشام بن زہرہ کے آزادکردہ غلام ابو سائب نے انہیں حدیث سنائی کہ انہو ں نےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل جنابت نہ کرے۔“(ابو سائب نے) کہا: اے ابو ہریرہ! وہ کیا کرے؟ انہوں نے جواب دیا: وہ (اس میں سے) پانی لے لے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے کوئی ایک ساکن ٹھہرے ہوئے پانی میں نہائے جبکہ وہ جنبی ہو“ ابو سائب نے پوچھا: اے ابو ہریرہ! وہ کیسے نہائے؟ تو انہوں نے جواب دیا، پانی لے کر باہر بیٹھ کر نہائے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 658
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث کا تعلق بھی آداب واخلاق سے ہے کہ یہ بات تہذیب وشائستگی جس کی اسلام تعلیم دیتا ہے کہ منافی ہے کہ انسان ٹھہرے ہوئے پانی کے اندر بیٹھ کر غسل جنابت کرے، انسان کو اس غرض کے لیے کسی برتن میں الگ پانی لے کر نہانا چاہیے۔ یا اگر برتن نہ ہوتو اس طرح استعمال کرنا چاہیے کہ وہ دوبارہ اسی پانی میں شامل نہ ہو جائے، ظاہر ہے تھوڑے پانی کے اندر بیٹھ کر کوئی نہیں نہائے گا۔ پانی زیادہ ہو گا تو وہ ایسے نہائے گا، اس لیے حدیث میں قلیل وکثیر کی قید نہیں لگائی گئی اور پانی کی قلیل وکثیر تعداد کے بارے میں شوافع اور احناف میں بہت اختلاف ہے۔ شوافع نے ایک صحیح حدیث کی بنیاد پر دو بڑے مٹکوں سے کم پانی کو قلیل قرار دیا ہے اور زیادہ کو کثیر، احناف کے پاس چونکہ اس مسئلہ کے بارے میں صحیح اور صریح روایت نہیں ہے اس لیے ان کا ایک مقدار پر اتفاق نہیں ہے حنابلہ کا مؤقف امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ والا ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قلیل وکثیر مقدار کا اعتبار نہیں ہے، اوصاف ثلاثہ (رنگ، بو اور ذائقہ) میں سے کسی ایک کے بدلنے کی صورت میں (نجاست کے گرنے کی صورت میں) پانی نجس ہو گا، وگرنہ پلید نہیں محدثین، شوافع یا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مؤقف کو ترجیح دیتے ہیں۔