ابو بردہ نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اشعری رفقاء جب رات کے وقت گھروں میں داخل ہو تے ہیں تو میں ان کے قرآن مجید پڑھنے کی آواز کو پہچان لیتا ہوں اور رات کو ان کے قرآن پڑھنے کی آواز سے ان کے گھروں کو بھی پہچان لیتا ہوں، چاہے دن میں ان کے اپنے گھروں میں آنے کے وقت میں نے ان کے گھروں کو نہ دیکھا ہو۔ ان میں سے ایک حکیم (حکمت و دانائی والاشخص) ہے جب وہ گھڑسواروں۔۔۔یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دشمنوں۔۔۔سے ملا قات کرتا ہے تو ان سے کہتا ہے۔میرے ساتھی تمھیں حکم دے رہے ہیں کہ تم ان کا انتظار کرو۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:" اشعری رفقاء جب رات کے وقت گھروں میں داخل ہو تے ہیں تو میں ان کے قرآن مجید پڑھنے کی آواز کو پہچان لیتا ہوں اور رات کو ان کے قرآن پڑھنے کی آواز سے ان کے گھروں کو بھی پہچان لیتا ہوں،چاہے دن میں ان کے اپنے گھروں میں آنے کے وقت میں نے ان کے گھروں کو نہ دیکھا ہو۔انہیں میں سے حکیم نامی فردہے،جب وہ سواریوں یادشمن سے ملتاہے تو انہیں کہتا ہے،میرے ساتھی تمھیں مشورہ دیتے ہیں کہ ان کا انتظار کرو۔
أعرف أصوات رفقة الأشعريين بالقرآن حين يدخلون بالليل وأعرف منازلهم من أصواتهم بالقرآن بالليل وإن كنت لم أر منازلهم حين نزلوا بالنهار ومنهم حكيم إذا لقي الخيل أو قال العدو قال لهم إن أصحابي يأمرونكم أن تنظروهم
أعرف أصوات رفقة الأشعريين بالقرآن حين يدخلون بالليل وأعرف منازلهم من أصواتهم بالقرآن بالليل وإن كنت لم أر منازلهم حين نزلوا بالنهار ومنهم حكيم إذا لقي الخيل أو قال العدو قال لهم إن أصحابي يأمرونكم أن تنظروهم
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6407
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، اپنے گھر میں رات کو بلند آواز سے قرآن کی تلاوت کرنا، جب کہ دوسروں کو تکلیف نہ ہو، جائز ہے اور آواز پہچان کر پڑھنے والے کی شناخت ہو سکتی ہے، نیز اپنے گھوڑ سواروں کو یہ مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ اپنے پیدل آنے والے ساتھیوں کا انتظار کر لو، تاکہ مشترکہ طور پر حملہ کیا جا سکے، یا دشمن کو مقابلہ میں ٹھہرنے کی دعوت دی جا سکتی ہے کہ ٹھہرو دو دو ہاتھ کر لیں، کیونکہ خیل سے اپنا گھوڑ سوار دستہ بھی مراد ہو سکتا ہے اور دشمن کا بھی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6407
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4232
4232. حضرت ابوبردہ ؓ نے حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں اشعری احباب کے قرآن پڑھنے کی آواز پہچان لیتا ہوں جبکہ وہ رات کے وقت آتے ہیں۔ اگرچہ میں نے دن کے وقت ان کی اقامت گاہوں کو نہیں دیکھا، تاہم ان کی آوازوں میں سے ان کی اقامت گاہوں کو پہچان لیتا ہوں۔ ان میں سے ایک حکیم ہیں کہ جب کہیں اس کی دشمنوں سے مڈبھیڑ ہو جاتی ہے تو ان سے کہتا ہے: میرے دوستوں کے کہنے کے مطابق تم تھوڑی دیر کے لیے ان کا انتظار کر لو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4232]
حدیث حاشیہ: روایت کے آخر میں ایک اشعری حکیم کا ذکر ہے حکیم ا س کا نام ہے یاوہ حکمت جاننے والا ہے۔ روایت کے آخر میں اس حکیم کے قول کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ساتھ لڑ نے کو تیار ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ حکیم بڑا بہادر ہے دشمنوں کے مقابلہ سے بھاگتا نہیں ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ ذرا صبر کرو ہم تم سے لڑنے کے لیے حاضر ہیں یا یہ مطلب ہے کہ وہ بڑی حکمت اور دانائی والا ہے۔ دشمنوں کو اس طرح ڈرا کر اپنے تئیں ان سے بچا لیتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اکیلا نہیں ہے اس کے ساتھی اور آرہے ہیں۔ بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے جب وہ مسلمان سواروں سے ملتا ہے تو کہتا ہے ڈرا ٹھیرو یعنی ہمارے ساتھیوں کو جو پیدل ہیں آجا نے دو ہم تم سب مل کر کافروں سے لڑیں گے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4232
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4232
4232. حضرت ابوبردہ ؓ نے حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں اشعری احباب کے قرآن پڑھنے کی آواز پہچان لیتا ہوں جبکہ وہ رات کے وقت آتے ہیں۔ اگرچہ میں نے دن کے وقت ان کی اقامت گاہوں کو نہیں دیکھا، تاہم ان کی آوازوں میں سے ان کی اقامت گاہوں کو پہچان لیتا ہوں۔ ان میں سے ایک حکیم ہیں کہ جب کہیں اس کی دشمنوں سے مڈبھیڑ ہو جاتی ہے تو ان سے کہتا ہے: میرے دوستوں کے کہنے کے مطابق تم تھوڑی دیر کے لیے ان کا انتظار کر لو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4232]
حدیث حاشیہ: 1۔ حدیبیہ کے سال جب کفار کے ساتھ صلح ہوگئی تورسول اللہ ﷺ نے عمرو بن امیہ ضمری ؓ کو نجاشی کے پاس روانہ کیا کہ وہ جعفر بن ابی طالب اور ان کے ساتھیوں کو حبشے سے مدینہ طیبہ بھیج دے، چنانچہ نجاشی نے ان حضرات کو نہایت اعزاز واحترام سے واپس کیا۔ جب یہ واپس آئے تورسول اللہ ﷺ اس وقت خیبر میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں خیبر کی غنیمت سےحصہ دیا۔ آپ نے انھیں حصہ دینے سے پہلے دیگرمجاہدین کو اعتماد میں لیا، ان سے گفتگو کی،پھر انھیں مال غنیمت میں شریک کیا۔ (فتح الباری 603/7۔ ) 2۔ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! لوگ ہم پر فخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم اولین مہاجرین میں سے نہیں ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تمہاری دوہجرتیں ہیں: پہلے تم نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی، پھر حبشہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی۔ “(فتح الباري: 607/7۔ ) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سفینہ کو دوسرے مہاجرین اولین پر مطلقاً فضیلت حاصل ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھاہے کہ اس حیثیت سے ان کو برتری حاصل ہوگی، یہ جزوی فضیلت ہے جو کلی فضیلت کے منافی نہیں۔ (الطبقات الکبری لابن سعد: 261/8) 3۔ واضح رہے کہ حضرت عمر ؓ نے جو باتیں حضرت اسماء ؓ سے کی تھیں، ان سے تفاخر مقصود نہ تھا بلکہ تحدیث نعمت کے طور پرایسا کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے ہجرت کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ایسی گفتگو بسا اوقات ساتھیوں اور دوستوں میں ہوجاتی ہے، اس سے فخر ومباہات قطعاً مقصود نہیں۔ واللہ اعلم۔ 4۔ امام بخاری ؒ نے غزوہ خیبر کی مناسبت سے یہ واقعہ بیان کیا ہے، دیگر تفصیلات کتاب الجہاد میں بیان ہوچکی ہیں۔ خیبر سے ملنی والی غنیمت اور اس کی تفصیل آئندہ احادیث میں بیان ہوں گی۔ ان شاء اللہ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4232