الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الطَّهَارَةِ
طہارت کے احکام و مسائل
22. باب الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ:
22. باب: موزوں پر مسح کرنا۔
حدیث نمبر: 624
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: " كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْتَهَى إِلَى سُبَاطَةِ قَوْمٍ، فَبَالَ قَائِمًا فَتَنَحَّيْتُ، فَقَالَ: ادْنُهْ، فَدَنَوْتُ حَتَّى قُمْتُ عِنْدَ عَقِبَيْهِ، فَتَوَضَّأَ، فَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ ".
اعمش نے شقیق سےاور انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نےکہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ ایک خاندان کو کوڑا پھینکنے کی جگہ پر پہنچے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا تو میں دور ہٹ گیا۔ آپ نے فرمایا: قریب آ جاؤ۔ میں قریب ہو کر (دوسری طرف رخ کر کے) آپ کےپیچھے کھڑا ہو گیا (فراغت کے بعد) آپ نےوضو کیا اورموزوں پر مسح کیا۔ (قریب کھڑا کرنے کامقصد اس کی
حضرت حذیفہ ؓ کی روایت ہے: کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ کچھ لوگوں کے کوڑا پھینکنے کی جگہ پر پہنچے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا، تو میں دور ہٹ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قریب آجا!تو میں قریب ہو کر آپ کے پیچھے کھڑا ہوگیا (فراغت کے بعد) آپ نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 273
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   جامع الترمذيتوضأ ومسح على خفيه
   سنن أبي داودبال قائما دعا بماء فمسح على خفيه
   صحيح مسلمتوضأ فمسح على خفيه
   سنن ابن ماجهتوضأ ومسح على خفيه
   سنن النسائى الصغرىتوضأ ومسح على خفيه
   صحيح ابن خزيمةأتى سباطة قوم فبال قائما توضأ ومسح على خفيه
   المعجم الصغير للطبرانيتوضأ ومسح على الخفين
   المعجم الصغير للطبرانيتوضأ ومسح خفيه
   مسندالحميديرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أتى سباطة قوم فبال قائما فذهبت أتنحى عنه فجذبني إليه حتى كنت عند عقبه فلما فرغ توضأ ومسح على خفيه

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 624 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 624  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بیٹھنے کے لیے جگہ نہ ملے اور پیشاب کی ضرورت لاحق ہوجائے،
تو کھڑے ہوکر پیشاب کیا جاسکتا ہے،
کیونکہ بیٹھ کر پیشاب کرنا تہذیب وشائستگی کی علامت ہے،
اور اس کا تعلق آداب واخلاق سے ہے،
اس لیے کبھی کبھار ضرورت کے تحت ایسے کرنا جائز ہے۔
آپ کی عام عادت دور جانے کی تھی اور اس دفعہ آپ دور بھی تشریف نہیں لے گئے اور پردہ کے لیے حضرت حذیفہ ؓ کو اپنے پیچھے کھڑا کیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 624   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 23  
´کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کے حکم کا بیان`
«. . . عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُبَاطَةَ قَوْمٍ، فَبَالَ قَائِمًا ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ . . .»
. . . حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کے کوڑے خانہ (گھور) پر آئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا ۱؎ پھر پانی منگوایا (اور وضو کیا) اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 23]
فوائد و مسائل:
➊ معلوم ہوا کہ ضرورت کے موقع پر کھڑے ہو کر پیشاب کرنا جائز ہے بشرطیکہ چھینٹے پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔ چنانچہ اس حدیث کے پیش نظر حضرت عمر، حضرت علی، ابن عمر اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا جائز ہے لیکن سنت یہ ہے کہ آدمی بیٹھ کر پیشاب کرے کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: جو شخص تمہیں یہ بیان کرے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر پیشاب کیا کرتے تھے تو اس کی بات کی تصدیق نہ کرو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیشہ بیٹھ کر ہی پیشاب کیا کرتے تھے۔ [جامع الترمذي، الطهارة، باب ما جاء فى النهي عن البول قائما، حديث: 12، وسنن النسائي، الطهارة، حديث: 29]
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس مسئلے میں سب سے زیادہ صحیح روایت یہی ہے اور پھر بیٹھ کر پیشاب کرنے میں پردہ پوشی بھی زیادہ ہے اور آدمی پیشاب کے چھینٹوں سے بھی زیادہ محفوظ رہتا ہے۔ آج کل ماڈرن قسم کے لوگ، جو مغرب کی نقالی میں حد سے بڑھ چکے ہیں، ہوٹلوں اور پارکوں میں کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہیں اور اس میں فخر محسوس کرتے ہیں، حالانکہ ہر معاملے میں غیروں کی نقالی کرنا سراسر حدیث رسول کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور انگریز کی اور غیر مسلموں کی نقالی سے بچائے۔
➋ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض حالات میں لوگوں کے قریب بھی پیشاب کیا جا سکتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 23   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 18  
´قضائے حاجت کے لیے دور نہ جانے کی رخصت کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ لوگوں کے ایک کوڑے خانہ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ۱؎، میں آپ سے دور ہٹ گیا، تو آپ نے مجھے بلایا ۲؎، (تو جا کر) میں آپ کی دونوں ایڑیوں کے پاس (کھڑا) ہو گیا یہاں تک کہ آپ (پیشاب سے) فارغ ہو گئے، پھر آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 18]
18۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ روایت مختصر ہے جس سے بعض غلط فہمیوں کا امکان ہے، اس لیے ترجمے میں قوسین کے ذریعے سے وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صحیح صورت واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑے کے ڈھیر پر پیشاب کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حسب معمول آپ سے دور ہونے لگے، لیکن چونکہ آپ کو صرف پیشاب کی حاجت تھی جس میں آواز یا بدبو کا امکان نہ تھا (خصوصاً قیام کی حالت میں) اس لیے آپ نے انہیں کہا: اے حذیفہ! مجھے اوٹ کرو۔ وہ آپ سے قریب پچھلی طرف دوسری جانب منہ کر کے کھڑے ہو گئے۔ (ایڑیوں کے قریب سے مراد مطلق قرب ہے نہ کہ حقیقتاً ایڑیوں سے ایڑیاں ملا کر۔) اس طرح آپ کی طرف نظر کا امکان نہ رہا اور پورا پردہ ہو گیا۔
➋ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عام عادت بیٹھ کر پیشاب کرنے ہی کی تھی مگر مذکورہ واقعہ میں آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ اس کی مختلف عقلی و نقلی توجیہات کی گئی ہیں، مثلاً: ڈھیر کی گندگی سے بچنے کے لیے کیونکہ ڈھیر پر بیٹھنے کی صورت میں کپڑوں یا جسم کو گندگی لگ سکتی تھی یا اس لیے کہ پیشاب کی دھار دور گرے۔ بیٹھنے کی صورت میں پیشاب قریب گرتا اور واپس پاؤں کی طرف آتا، نیز چھینٹے بھی پڑتے یا گھٹنے میں تکلیف کی وجہ سے بیٹھنا مشکل تھا جیسا کہ بیہقی کی ایک ضعیف روایت میں ہے۔ [السنن الکبریٰ، للبیھقی: 101/1]
یا کمر درد کے علاج کے لیے جیسا کہ اطباء کا خیال تھا۔ بہرحال مذکورہ توجیہات کی روشنی میں عمومی رائے یہی ہے کہ آپ کے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی ان میں سے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور تھی، لیکن تحقیق یہ ہے کہ ان مذکورہ وجوہ میں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی ایک وجہ بھی بسند صحیح ثابت نہیں، اس لیے اس کے مقابلے میں ایک دوسری رائے بھی ہے جسے امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ نے اختیار کیا اور وہ یہ ہے کہ آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب صرف بیان جواز کے لیے کیا ہے جبکہ آپ کی عام عادت بیٹھ کر ہی پیشاب کرنے کی تھی۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، اطھارۃ، حدیث: 274، مع شرح النووي]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں، «وإلا ظھر أنه فعل ذلک لبیان الجواز……» زیادہ واضح بات یہ ہے کہ آپ کا یہ عمل صرف بیان جواز کے لیے تھا…… [فتح الباري: 430/1، طبع دارالسلام]
نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بارے میں منقول توجیہات کو گویا قابل حجت نہیں سمجھا، بہرحال اگر کوئی شخص ضرورت کے پیش نظر یا کبھی کبھار بلا ضرورت ہی جواز کو پیش نظر رکھتے ہوئے کھڑے ہو کر سنت پر عمل کی خاطر پیشاب کر لیتا ہے تو ان شاء اللہ جائز ہو گا۔ واللہ أعلم۔
➌ باب کا مقصد یہ ہے کہ اگر آواز یا بدبو کا خدشہ نہ ہو تو پیشاب کے لیے صرف پردہ کافی ہے، دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 18   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 13  
´کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی اجازت کا بیان۔`
حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا گزر ایک قوم کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر سے ہوا تو آپ نے اس پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا، میں آپ کے لیے وضو کا پانی لایا، اسے رکھ کر میں پیچھے ہٹنے لگا، تو آپ نے مجھے اشارے سے بلایا، میں (آ کر) آپ کی ایڑیوں کے پاس کھڑا ہو گیا، آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 13]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی حماد اور عاصم نے بھی ابو وائل ہی سے روایت کی ہے مگر ابو وائل نے حذیفہ کے علاوہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے،
ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ایک راوی نے ایک حدیث دو دو راویوں سے روایت کی ہوتی ہے اس لیے ممکن ہے کہ ابو وائل نے دونوں صحابیوں سے سنا ہو۔

2؎:
کیونکہ اعمش والی روایت صحیحین میں بھی ہے جبکہ عاصم والی روایت صرف ابن ماجہ میں ہے گرچہ وہ بھی صحیح ہے،
(معاملہ صرف زیادہ صحیح ہونے کا ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 13