(شعبہ کے بجائے) روح بن قاسم کی سند سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کےلیے کھلی جگہ تشریف لے جاتے تو میں آپ کے لیے پانی لے جاتا، آپ اس سے استنجا کرتے
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے: ”کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے کھلی جگہ تشریف لے جاتے اور میں آپ کے لیے پانی لاتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے استنجا کرتے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 621
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) يَتَبَرَّزُ: براز کی کھلی جگہ، جہاں انسان لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوسکے، یعنی قضائے حاجت کے لیے آپ ﷺ آبادی سے دور تشریف لے جاتے تھے، تاکہ اس حالت میں آپ پر لوگوں کی نظر نہ پڑے۔ (2) يَتَغَسَّلُ بِهِ: پانی سے استنجا کی جگہ کو دھوتے، مقصد استنجا کرنا ہے۔ فوائد ومسائل: قضائے حاجت کے وقت رسول اللہ ﷺ نیز ہ ساتھ رکھتے تھے، تا کہ اس کو سامنے گاڑ کر اس پر کپڑا وغیرہ ڈال کر اوٹ کر لی جائے، یا اس کو دیکھ کر کوئی ادھر سے گزرنے کا قصد نہ کرے، یا اس سے سخت زمین کو نرم کر لیا جائے، تا کہ چھینٹے نہ پڑیں، یا اگر کوئی موذی کیڑا مکوڑا سامنے آجائے، اس سے بچاؤ کیا جاسکے، یا بوقت ضرورت اس کوسترہ بنایا جاسکے۔ (فتح الباري: 1/331)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 621
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:217
217. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب رفع حاجت کے لیے باہر تشریف لے جاتے تو میں آپ کے لیے پانی لے کر جایا کرتا جس سے آپ استنجا کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:217]
حدیث حاشیہ: 1۔ رفع حاجت میں بول وبراز سب شامل ہیں، اس طرح پیشاب کا دھونا ثابت ہوا۔ حلال جانوروں کا پیشاب اس سے مستثنیٰ ہے جس کا بیان آگے ہوگا۔ اس طرح یغسل کا لفظ بھی عام ہے کہ محل نجاست کو دھوتے تھے۔ اب خواہ وہ محل بول ہو یا محل براز۔ طہارت کی صورت دھونا ہے، اسی مناسبت سے عنوان ثابت ہوگیا۔ 2۔ شارح بخاری ابن بطال نے لکھاہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نےحیوانات کے پیشاب کے متعلق اہل ظاہر کی موافقت کی ہے۔ (شرح ابن بطال: 347/1) یہ ابن بطال کا سہو ہے کہ انھوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اہل ظاہر کا ہم نوا بتلایا ہے، کیونکہ اہل ظاہر کےنزدیک بول الناس کےعلاوہ تمام حیوانات کے پیشاب طاہر ہیں، خواہ ان کا گوشت کھایاجاتا ہو یا نہ کھایا جاتا ہو۔ اس موقف کو نہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے اور نہ اسے کسی موقع پر راجح ہی قراردیا ہے۔ ظاہریہ کی بعض جزئیات سے اتفاق کرنے سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ تمام جزئیات کو اختیار کرلیا گیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ خود مجتہد مطلق ہیں، کسی مجتہد کی جو جزئیات کتاب وسنت کے موافق ہوتی ہیں انھیں اختیار کرلیتے ہیں اور جو کتاب وسنت کے منافی ہوتی ہیں انھیں خاموشی کے ساتھ ترک کردیتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے تراجم ہی ان کی ٹھوس اورخاموش ابحاث ہیں۔ ان کی خاص شروط کے مطابق احادیث صحیحہ کی اتباع ہی ان کی دھن ہے۔ ظاہریہ میں تو ابن حزم بھی ہیں، وہ ماکول اللحم حیوانات کے پیشاب اور گوبر وغیرہ کو نجس قراردیتے ہیں۔ محلی ابن حزم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ہر جانور کے بول سے اجتناب ضروری ہے بصورت دیگر تساہل برتنے پر اس کے حق میں عذاب کی وعید ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مجتہد مطلق ہیں اور وہ دلیل کے تابع ہیں۔ ان کا مسلک کتاب وسنت ہے اور کچھ نہیں۔ 3۔ عربی کا مقولہ ہے کہ جھوٹا آدمی بھی کبھی سچی بات کہہ دیتا ہے۔ اس کے پیش نظر اصلاحی صاحب کا اس سلسلے میں ایک حکیمانہ فتویٰ ہم یہاں نقل کرتے ہیں: ”میں نےآٹھ سال دیہات میں رہ کر دیکھا ہے کہ سب سے حکیمانہ فتویٰ ان لوگوں کا ہے جنھوں نے کہا جن جانوروں کا گوشت ہم کھاتے ہیں ان کا پیشاب بھی پاک ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ان جانوروں میں آپ زندگی گزاریں تو یہ ناممکن ہے کہ کبھی آپ کے کپڑے وغیرہ پر ان کے پیشاب کا چھینٹا نہ پڑ جائے، لہذا ان کے پیشاب کو انسان کے پیشاب پر قیاس کرنے سے لوگوں کے لیے غیرمعمولی دشواری پیدا ہوجاتی ہے اور ایسا کرنا شریعت کے مزاج کے خلاف ہے۔ “(تدبرحدیث: 311/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 217