´ولیمہ کا بیان`
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سے جب کوئی مشروب پی رہا ہو تو برتن میں سانس نہ لے۔“ (بخاری و مسلم) ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی طرح کی روایت ابوداؤد میں بھی ہے اور اس میں اتنا اضافہ ہے ”اس میں پھونک نہ مارے۔“ اور ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 904»
تخریج: «أخرجه البخاري، الأشربة، باب النهي عن التنفس في الإناء، حديث:5630، ومسلم، الأشربة، كراهة التنفس في نفس الإناء.....، حديث:267 بعد حديث:2027، وحديث ابن عباس: أخرجه أبوداود، الأشربة، حديث:3728، والترمذي، الأشربة، حديث:1889 وسنده صحيح.»
تشریح:
1. اس حدیث میں برتن میں سانس لینے کی ممانعت ہے۔
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ برتن میں سانس لینے سے اندیشہ ہے کہ مشروب میں تھوک یا رال ٹپک جائے جو دوسرے آدمی کی طبیعت پر ناگوار گزرے‘ نیز سانس کے ذریعے سے پھیپھڑے سے جو ہوا نکلتی ہے اس میں فاسد مادوں کا اثر ہوتا ہے جو صحت کے لیے ضررر ساں ہے۔
2.افضل یہ ہے کہ انسان تین سانس میں پیے اور برتن کو منہ سے الگ کر کے سانس لے۔
3.کھانے پینے کی اشیاء میں پھونک مارنا بھی جائز نہیں۔
اگر کھانا یا مشروب زیادہ گرم ہو تو انتظار کر کے اور ٹھنڈا کر کے کھائے پیے۔
اسی طرح اگر کوئی تنکا وغیرہ اس میں گر پڑا ہو تو ہاتھ سے نکال لے‘ پھونک نہ مارے 4.بعض علماء تبرک کے لیے قرآن کریم یا کوئی دعا پڑھ کر دم کرنے کو بھی ناجائز کہتے ہیں جبکہ بعض علماء کہتے ہیں کہ سورۂ فاتحہ اور مسنون ادعیہ پڑھنے سے اس میں کچھ تاثیر پیدا ہو جاتی ہے‘ اس لیے وہ دم کر کے پھونک مارنے کو ممنوع نفخ میں شامل نہیں کرتے بلکہ اسے جائز قرار دیتے ہیں۔
مزید تفصیل کے لیے سنن ابو داود، اردو، طبع دارالسلام‘ حدیث: ۳۷۲۲ کے فوائد و مسائل دیکھیں۔