ابو کریب نے بیان کیا، ہمیں ابو زائدہ کے بیٹے نے اپنے والد (ابو زائدہ) سے خبر دی، انہوں نے مصعب بن شیبہ سے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث روایت کی، البتہ ابن ابی زائدہ نےکہا: ان کے والد نے کہا: میں دسویں بات بھول گیا ہوں
امام صاحب مذکورہ بالا روایت ایک اور سند سے بیان کرتے ہیں اور ابو برزہ سے نقل کرتے ہیں: کہ میں دسویں بات بھول گیا ہوں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 261
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث برقم (603)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 605
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : بَرَاجِمٌ: بُرجمةٌ کی جمع ہے، انگلیوں کے جوڑ، پورے، کیونکہ ان میں میل کچیل رہ جاتی ہے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث میں دس چیزوں کو امور فطرت سے قرار دیا گیا ہے۔ فطرت کے معنی ومفہوم کے بارے میں شارحین کی رائے میں لفظی اختلاف ہے، بعض حضرات کے نزدیک فطرت سے مراد: سنت انبیاءؑ، یعنی پیغمبروں کا طریقہ اور عمل ہے، کیونکہ "مستخرج أبي عوانة" کی روایت میں "فطرۃ" کی جگہ "سنة" کا لفظ ہے، یعنی: "عَشْرٌ مِنَ السُّنَّة" کے الفاظ ہیں، گویا انبیاء ؑنے جس طریقہ پر خود زندگی گزاری اور اپنی اپنی امتوں کو جس راہ پر چلنے کی تلقین وہدایت کی، اس میں یہ دس باتیں شامل تھیں، اس طرح یہ دس امور انبیاءؑکے مشترکہ معمولات او رمتفقہ تعلیم کا حصہ ہیں، اور اس سے ان حضرات کے نظریہ یا رائے کی تغلیط سمجھ میں آجاتی ہے، جو سنۃ کا معنی اصول فقہ کی اصطلاح والا لیتے ہیں اور کہتے ہیں: کہ داڑھی رکھنا سنت ہے۔ بعض شارحین کے نزدیک "فطرة" سے مراد: دین فطرت، یعنی اسلام ہے، کیونکہ قرآن مجید میں دین حنیف کو ﴿فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا﴾ سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی یہ امور دین اسلام کے اجزاء یا احکام میں سے ہیں۔ بعض شارحین نے "فِطْرةٌ" کا معنی: ”انسان کی فطرت اور جبلت کیا ہے“ کہ یہ دس چیزیں انسان کی اصل فطرت جو اللہ نے بنائی ہے کا تقاضا ہیں۔ جس طرح انسان کی اصل فطرت یہ ہے کہ وہ ایمان نیکی اور طہارت وپاکیزگی کو پسند کرتا ہے، اور کفر فواحش ومنکرات اور گندگی وپلیدی کو ناپسند کرتا ہے، اس طرح اگر انسان اپنی اصل فطرت پر قائم ہے اور و ہ کسی خارجی اثر اور ماحول سے ماؤف اور فاسد نہیں ہوچکی، تو وہ مذکورہ بالا دس امور کو پسند کرے گی۔ ہماری معروضات سے یہ حقیقت خود بخود نکھر کر سامنے آجاتی ہے، کہ لفظ فطرت کا مطلب خواہ سنت انبیاءؑ ہو یا فطرت اسلام ہو اور خواہ انسان کی اصل فطرت وجبلت ہو، حدیث کا مدعا تینوں صورتوں میں ایک ہی ہوگا، کہ یہ دس چیزیں انبیاءؑ کے لائے ہوئے دس متفقہ طریقہ زندگی، اور اس دین فطرت اسلام کے اجزاء واحکام میں سے ہیں، جو دراصل انسان کی اصل فطرت وجبلت کا تقاضا ہیں، کیونکہ انبیاء ؑ جو طریقہ زندگی اورجو دین لے کر آتے ہیں، وہ دراصل انسانی فطرت کے تقاضوں ہی کی مستند اور مفید تشریح ہوتی ہے، جو اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء ؑ کے ذریعہ بیان فرماتا ہے۔ محدثین کی متفقہ رائے ہے کہ راوی کی روایت کا اعتبار ہوتا ہے، اس کی رائے یاعمل کا نہیں۔ یہاں احادیث میں ابن عمر ؓکی روایت میں داڑھی کےلیے: «أَعْفُوا اللِّحَى» اور «أَوْفُوا اللِّحَى» کے لفظ ہیں، اور ابوہریرہ ؓ کی روایت میں: «أَرْخُوا اللِّحَى» ہے۔ ان الفاظ کا صریح تقاضا ہے، کہ داڑھی میں کسی قسم کی تراش، خراش نہ کی جائے، اب صریح روایات کی موجودگی میں بعض ضعیف حدیثوں اور ابن عمرؓ اور ابوہریرہ ؓ کے فعل سے استدلال کرتے ہوئے، داڑھی میں تراش، خراش کر لینا یا قبضہ کو سنت قرار دینا درست نہیں۔ نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے کا تقاضا یہ ہے، کہ کسی وبیشی یا کسی کی رائے اور عمل کو دخیل کیے بغیر آپ ﷺ کے ارشاد کو من وعن تسلیم کر لیا جائے، خصوصاً جبکہ یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی داڑھی مبارک دراز اور گھنی تھی جو سینہ مبارک کو بھر لیتی تھی، تو رسول اللہ ﷺ سے عقیدت ومحبت اور آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کا تقاضا یہ ہے، کہ صورت وسیرت میں آپ کی کامل پیروی کی جائے اور اس سے پہلو تہی کے لیے حیلے اور بہانے نہ تراشے جائیں، بلکہ آپ پر ایمان لانے اور آپ سے عقیدت ومحبت اور آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کا اصل تقاضا تو یہ ہے، کہ جہاں تک ممکن ہو فرض وسنت یا مستحب کی بحث میں پڑے بغیر آپ ﷺ کی اتباع اور اقتدا کی جائے، اور آپ کے طرز عمل اور طریقہ سے ممکن حد تک پہلو تہی سے گریز کیا جائے، اس لیے اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ ان دس امور کے بارے میں ائمہ اربعہ کے نظریات اور آراء کیا ہیں۔