حضرت اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حوض میں (موجود) میں ہوں گا تا کہ دیکھوں کہ تم میں سے کو ن میرے پاس آتا ہے، کچھ لوگوں کو مجھ (تک پہنچنے) سے پہلے ہی پکڑ لیا جا ئے گا۔تو میں کہوں گا: اے میرے رب!یہ میرے ہیں میری امت میں سے ہیں۔ تو کہا جا ئے گا، آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انھوں نے کیا (کچھ) کیا؟آپ کے بعد انھوں نے اپنی ایڑیوں پرواپس گھومنے میں (ذرا) دیر نہیں کی۔ (نافع نے) کہا: ابن ابی ملیکہ یہ دعا کرتے تھے: "اے اللہ!ہم اس بات سے تیری پناہ میں آتے ہیں کہ ہم اپنی ایڑیوں پر پلٹ جا ئیں یا ہمیں کسی آزمائش میں دال کر اپنے دین سے ہٹا دیا جا ئے۔"
ابن ابی ملیکہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں حوض پر رہوں گا تاکہ ان لوگوں کو دیکھوں جو میرے پاس آئیں گےاور کچھ لوگوں کو مجھ تک پہنچنے سے پہلے پکڑ لیا جائے گا تو میں کہوں گا اے میرے رب! یہ میری راہ پر چلنے والے اور میرے ساتھ ہیں تو جواب دیا جائے گا، کیا تمہیں معلوم نہیں، انہوں ن ے تیرے بعد کیا عمل کیے؟ اللہ کی قسم! یہ تیرے بعد مسلسل اپنی ایڑیوں پر لوٹتے رہے“ ابن ابی ملیکہ کے شاگرد کہے ہیں وہ یہ دعا کرتے تھے، اے اللہ! ہم ایڑیوں پر لوٹنے سے تیری پناہ چاہتے ہیں اور اس سے کہ اپنے دین سے برگشتہ ہوں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5972
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کی دعا سے ثابت ہوتا ہے، وہ ان لوگوں کو بھی اس میں داخل سمجھتے تھے، جنہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور کے بعد دین میں نئی نئی باتیں داخل کیں یا دین سے برگشتہ ہو گئے، لیکن وہ چونکہ کلمہ توحید پڑھتے تھے اور مسلمانوں کی طرح دینی احکام کو تسلیم کرتے تھے، اگرچہ ان پر پوری طرح عمل پیرا نہیں تھے، اس لیے وہ آپ کو اپنے امتی محسوس ہوں گے، اس لیے بعض روایات میں أصحابی آیا ہے اور بعض میں من امتی، کیونکہ دونوں قسم کے لوگ ہوں گے۔ یعنی کچھ ابوبکر کے دور میں مرتد ہونے والے اور کچھ بعد کی امت سے بدعتوں کے مرتکب، جیسا کہ من امتی کے لفظ سے ثابت ہو رہا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5972
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6593
6593. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: میں حوض پر موجود ہوں گا اور دیکھوں گا کہ تم میں سے کون میرے پاس آتا ہے۔ پھر کچھ لوگوں کو مجھ سے الگ کر دیا جائے گا۔ میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ تو میرے آدمی اور میری امت کے لوگ ہیں۔ مجھ سے کہا جائے گا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا کام کیے تھے؟ اللہ کی قسم! یہ مسلسل الٹے پاؤں لوٹتے رہے۔ ابن ملکیہ کہا کرتے تھے: اے اللہ! ہم اس سے تیری پناہ مانگتے ہیں کہ الٹے پاؤں لوٹ جائیں یا اپنے دین کے متعلق کسی فتنے میں مبتلا ہو جائیں۔ (علی أعفا بکم تنکصون) کے معنیٰ یہی ہیں: تم اپنے دین سے ایڑیوں کے بل پھر گئے، یعنی اسلام سے مرتد ہوگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6593]
حدیث حاشیہ: (1) جو انسان دین اسلام سے مرتد ہو جائے یا دین اسلام میں بدعات کو رواج دے، اسے قیامت کے دن حوض کوثر سے دور رکھا جائے گا۔ اسی طرح وہ شخص جو حق کو دبائے اور لوگوں پر ظلم و ستم کرے، اسلام اور اہل اسلام کو ذلیل کرے اسے بھی اس سزا سے دوچار ہونا پڑے گا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”میں تجھے ان امراء سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں جو میرے بعد ہوں گے۔ جو شخص ان کے پاس جائے گا، ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا اور ان کے ظلم و ستم پر ان کا تعاون کرے گا وہ مجھ سے نہیں اور میں اس سے نہیں اور وہ حوض کوثر پر میرے نزدیک نہیں آ سکے گا۔ اور جو انسان ان کے دروازے پر نہیں جائے گا، ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کرے گا اور نہ ان کے ظلم و ستم پر ان کی مدد کرے گا وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ وہ حوض پر میرے پاس آئے گا اور اس کا پانی نوش کرے گا۔ “(جامع الترمذي، الفتن، حدیث: 2259)(2) ہم اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہمارا خاتمہ ایمان پر کر اور ہمیں ان لوگوں کی رفاقت نصیب کر جو تیری بارگاہ میں کامران و کامیاب ہیں اور قیامت کے دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں حوض کوثر کا پانی پینے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6593