5938۔ابو عمار شدادسے رویت ہے کہ انھوں نے حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا؛"اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو منتخب کیا اور کنانہ میں سے قریش کو منتخب کیا اور قریش میں سے بنو ہاشم کو منتخب کیا اور بنو ہاشم میں سے مجھ کو منتخب کیا۔"
حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا، ”اللہ نے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے کنانہ کا انتخاب فرمایا اور کنانہ سے قریش کا منتخب کیا اور قریش سے بنو ہاشم کو چنا اور بنو ہاشم سے مجھے برگزیدہ فرمایا۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5938
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: قریش کنانہ کے بیٹے نضر کی اولاد میں اور بقول بعض فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ کی اولاد ہیں اور بنو ہاشم، عبد مناف بن قصی بن کلاب کی اولاد ہیں اور آپ عبدالمطلب بن ہاشم کے بیٹے، عبداللہ کی اولاد ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5938
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3605
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت کا بیان` واثلہ بن اسقع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے اسماعیل علیہ السلام کا انتخاب فرمایا ۱؎ اور اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے بنی کنانہ کا، اور بنی کنانہ میں سے قریش کا، اور قریش میں سے بنی ہاشم کا، اور بنی ہاشم میں سے میرا انتخاب فرمایا ”۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3605]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: صحیح مسلم میں اگلی حدیث کی طرح یہ ٹکڑا نہیں ہے، یہ محمد بن مصعب کی روایت سے ہے جو کثیرالغلط ہیں، اس لیے یہ ضعیف ہے، معنی کے لحاظ سے بھی یہ ٹکڑا صحیح نہیں ہے، اس سے دوسرے ان انبیاء کی نسب کی تنقیص لازم آتی ہے، جو اسحاق علیہ السلام کی نسل سے ہیں، اس کے بعد والے اجزاء میں اس طرح کی کوئی بات نہیں اس حدیث سے نبی کریم محمد بن عبداللہ عبدالمطلب کے سلسلہ نسب کے شروع سے اخیر تک اشرف نسب ہونے پر روشنی پڑتی ہے، نبی قوم کے اشرف نسب ہی میں مبعوث ہوتا ہے، تاکہ کسی کے لیے کسی بھی مرحلے میں اس کی اعلیٰ نسبی اس نبی پر ایمان لانے میں رکاوٹ نہ بن سکے، یہ بھی اللہ کی اپنے بندوں پر ایک طرح کی مہربانی ہی ہے کہ اس کے اپنے وقت کے نبی پر ایمان لانے میں کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ سی بات رکاوٹ نہ بن سکے، فَالْحَمْدُلِلّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔
نوٹ: (پہلا فقرہ إِنَّ اللهَ اصْطَفٰيٰ مِنْ وُلدِ إِبْرِاهِيم إِسْمَاعِيل کے علاوہ بقیہ حدیث صحیح ہے، اس سند میں محمد بن مصعب صدوق کثیر الغلط راوی ہیں، اور آگے آنے والی حدیث میں یہ پہلا فقرہ نہیں ہے، اس لیے یہ ضعیف ہے، الصحیحة: 302)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3605