لیث نے نا فع سے انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے نہ اٹھا ئے کہ پھر وہاں (خود) بیٹھ جائے"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر، اس کی جگہ میں نہ بیٹھے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5683
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان سب کی مشترکہ جگہ میں آ کر پہلے بیٹھ جاتا ہے تو اس کو وہاں سے اٹھانا اس کے جذبات و احساسات کو ٹھیس پہنچانا ہے، اس لیے یہ جائز نہیں ہے، لیکن اگر مفاد عامہ کی کوئی جگہ ایسی ہے جس کے بارے میں معلوم ہے کہ فلاں آدمی اس جگہ عام طور پر بیٹھتا ہے، مثلا مسجد میں ایک جگہ بیٹھ کر کوئی عالم درس و تدریس کرتا ہے یا وعظ کرتا ہے یا فتویٰ دیتا ہے، یا ایک جگہ کوئی اپنی ریڑھی لگاتا ہے تو پھر کسی دوسرے کو اس جگہ نہیں بیٹھنا چاہیے، اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کو وہاں سے اٹھایا جا سکے گا، صحیح موقف یہی ہے، اگرچہ احناف کے نزدیک چونکہ یہ جگہ کسی کی ملکیت میں نہیں ہو سکتی، اس لیے جو بھی پہلے آئے گا، وہی اس جگہ بیٹھے گا، عام طور پر پہلے آ کر بیٹھنے والا اگر کسی دن پہلے نہ آئے تو وہ پہلے آنے والے کو اٹھا نہیں سکے گا۔ ظاہر ہے یہ اخلاق اور مروت کے منافی ہے، اگرچہ قانونی اور اصولی رو سے اس کی گنجائش ہے، لیکن یہ عرف اور رواج کے منافی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5683
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1240
´کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ پر مت بیٹھیں` «وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: لا يقيم الرجل الرجل من مجلسه ثم يجلس فيه ولكن تفسحوا وتوسعوا . متفق عليه» ”اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی دوسرے آدمی کو اس کی بیٹھنے کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ پھر خود اس میں بیٹھ جائے لیکن کھل جاؤ اور کشادگی کر لو۔“[بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1240]
مفردات: «تفسحوا» آپس میں کھل جاؤ تاکہ آنے والا بیٹھ جائے۔ «توسعوا» ایک دوسرے کے ساتھ مل جاؤ تا کہ آنے والے کے لئے جگہ نکل آئے قالہ ابن ابی جمرہ [فتح] «لا يقيم» نفی کا صیغہ ہے مگر اس سے مراد نہی ہے خصوصاً اس لئے کہ صحیح مسلم میں «لا يقيمن» کے الفاظ ہیں یعنی ہرگز نہ اٹھائے۔
فوائد: اس سے مراد یہ نہیں کہ کسی کی مخصوص جگہ میں یا اس کی ملکیت میں کوئی دوسرا آ کر بیٹھ جائے تو اسے اٹھانا جائز نہیں کیونکہ وہاں بلا اجازت بیٹھنا تو اس کے لئے جائز ہی نہیں۔ اس سے مراد وہ جگہیں ہیں جہاں بیٹھنا ہر مسلمان کے لئے جائز ہے، مثلاً مسجد، حکام کی مجالس، اہل علم کے حلقہ ہائے درس، بازار میں تجارت کے لئے کوئی جگہ، دستکاری کے لئے کوئی جگہ، تفریحی مقامات، منیٰ، مزدلفہ، عرفات وغیرہ میں جو شخص پہلے آ کر بیٹھ جائے کسی کے لئے جائز نہیں کہ اسے اٹھا کر خود بیٹھ جائے۔
➋ جو شخص کسی دوسرے کو اٹھا کر خود بیٹھتا ہے یا تو اس لئے یہ کام کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس پر ترجیح دے رہا ہے اور یہ بات مسلمان کے لائق نہیں ہے۔ «وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ»”وہ اپنے آپ پر (دوسروں کو) ترجیح دیتے ہیں چاہے ان کو سخت حاجت ہو۔“[59-الحشر:9] یا پھر تکبر کی وجہ سے ایسا کرتا ہے تو یہ اس سے بھی بدتر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تواضع کا حکم دیا ہے۔
➌ کسی شخص کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود بیٹھنے کے نتیجے میں دلوں کے اندر دوری اور بغض پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ جب کہ مومنوں کو باہمی محبت و اخوت کی تاکید کی گئی ہے۔
➍ «لا يقيم»”نہ اٹھائے“ کے لفظ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص خود بخود اٹھ کر بیٹھنے کی پیشکش کرے تو وہاں بیٹھنا جائز ہے۔ البتہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس سے بھی اجتناب کرتے تھے اگر کوئی شخص ان کی خاطر اپنی جگہ سے اٹھتا تو وہ وہاں نہیں بیٹھتے تھے۔ [بخاري: 7470] مگر اہل علم نے ان کے اس عمل کو مزید احتیاط پر محمول کیا ہے کہ ممکن ہے وہ شخص خوش دلی سے نہ اٹھا ہو صرف شرم کی وجہ سے اٹھ کھڑا ہوا ہو۔
➎ اس حدیث میں سے پاگل اور بےوقوف مستثنیٰ ہیں اگر وہ مجلس علم کو خراب کر رہے ہوں یا مسجد کے ادب میں خلل انداز ہوں تو انہیں نکالنا درست ہے۔ «وَلا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ» ”اور بیوقوفوں کو اپنا مال نہ دو۔“ مجلس علم کا مقام مال سے بہت زیادہ ہے۔ جب بےوقوفوں کو اس بات سے روکا جا سکتا ہے کہ وہ مال کو خراب کریں تو انہیں علم کی دولت خراب کرنے سے کیوں نہیں روکا جائے گا۔
➏ جو شخص بدبودار چیز کھا کر مسجد میں آئے۔ یا کسی کو تکلیف دے اسے مسجد سے نکالنا جائز ہے۔ جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے یہ سبزیاں تھوم، پیاز یا گندنا کھائی ہوں وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتوں کو اس چیز سے تکلیف ہوتی ہے جس سے بنی آدم کو تکلیف ہوتی ہے۔ [مسلم عن جابر: مساجد 4] عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک جمعہ کے خطبہ کے آخر میں فرمایا: لوگو تم یہ دو پودے کھاتے ہو جنہیں میں تو خبیث (برا) ہی سمجھتا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ مسجد میں کسی آدمی سے ان کی بو محسوس کرتے تو اس کے متعلق حکم دیتے تو اسے بقیع کی طرف نکال دیا جاتا۔ [مسلم: مساجد: 78] حقے اور سگریٹ کی بدبو تو پیاز اور لہسن سے کئی گنا تکلیف دہ ہوتی ہے۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 36
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1240
´ادب کا بیان` سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی آدمی کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ نہ بیٹھے۔ (اگر جگہ کی کمی ہو تو) کھل جاؤ اور کشادہ ہو جاؤ۔“(بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1240»
تخریج: «أخرجه البخاري، الأستئذان، باب لا يقيم الرجل الرجل من مجلسه، حديث:6269، ومسلم، السلام، باب تحريم إقامة الإنسان من موضعه المباح الذي سبق إليه، حديث:2177.»
تشریح: 1. اس حدیث میں مجلسی آداب کی تعلیم دی گئی ہے کہ اگر مجلس میں جگہ کی کمی واقع ہو رہی ہے اور لوگوں کی آمد بدستور جاری ہے تو پہلے نشستوں پر بیٹھے ہوئے لوگ ذرا سکڑ جائیں‘ ایک دوسرے کے قریب ہو جائیں یا مجلس کے دائرے کو ذرا اور وسیع کر لیا جائے تاکہ آنے والے حضرات بھی بیٹھ سکیں‘ البتہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایک آدمی کسی ضرورت کے پیش نظر اپنی نشست چھوڑ کر ذرا دیر کے لیے باہر جائے تو دوسرا اس کی جگہ پر قبضہ جما لے۔ 2. یہ حکم ہر جگہ کے لیے یکساں ہے‘ خواہ مسجد میں ہو یا مجلس احباب میں یا کہیں دوسرے مقام پر۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1240
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4828
´ایک شخص دوسرے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھے تو یہ کیسا ہے؟` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو ایک شخص اس کے لیے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تو وہ وہاں بیٹھنے چلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے روک دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4828]
فوائد ومسائل: 1) یہ ممانعت بھی احتیاط کے طور پر ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کی جگہ پر نہ بیٹھیں۔ ورنہ اگر کو ئی شخص احتراماَ کسی دوسرے کو اپنی جگہ بیٹھنے کی پیشکش کرتا ہے تو دیگر دلائل کی رُو سے اسکا جواز ہے۔
2) یہ رویت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک ضعیف ہے، تاہم معنوی طور پر صحیح ہے جیسا کہ خود اُنھوں نے اپنی تحقیق میں بخاری و مسلم کی روایات کا حوالہ درج کرنے کے بعد یغني عنه یعنی بخاری اور مسلم کی روایات کفایت کرتی ہیں کہا ہے۔ علاوہ ازیں شیخ البانی ؒ نے بھی اسے حسن کہا ہے، تفصیل کے لیئے دیکھئے:(الصحٰحة، حديث: ٢٢٨)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4828
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:659
659- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی میں بات نہ کریں۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:659]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی ہر حرکت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ جب تین آدمیوں میں سے دوا لگ ہو کر بات کریں گے تو تیسرا آدمی محسوس کرے گا کہ انہوں نے مجھے اس لائق نہیں سمجھا کہ بات چیت میں شریک کریں۔ علاوہ ازیں شیطان کے وسوسے سے یہ خیال بھی آ سکتا ہے کہ شاید یہ دونوں میرے خلاف کوئی مشورہ کر رہے ہیں۔ ایسے عمل سے پرہیز کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں بدگمانی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 661
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5686
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنے دینی بھائی کو اٹھا کر اس کی جگہ میں نہ بیٹھے۔“ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے لیے اگر کوئی آدمی اپنی جگہ سے اٹھ جاتا تو وہ اس جگہ میں نہیں بیٹھتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5686]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: آپ نے آنے والے کو دوسرے کو اٹھا کر اس کی جگہ بیٹھنے سے منع فرمایا ہے، لیکن پہلے بیٹھا ہوا بطیب خاطر کسی عمر رسیدہ، علم و فضل والے یا کسی اعتبار سے اپنے سے برتر شخصیت کے لیے خود جگہ خالی کرتا ہے تو یہ ایک پسندیدہ عمل ہے اور اجروثواب میں اضافہ کا باعث ہے، لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہ تورع اور احتیاط اختیار کرتے ہوئے، یہ سمجھ کر کہ شاید یہ اپنی خوشی اور رضامندی سے بطیب خاطر نہ اٹھا، بلکہ میرے دبدبہ یا میری ہیبت کی وجہ سے اٹھا ہو، اس جگہ نہیں بیٹھتے تھے، اگرچہ امام نووی نے یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ صف اول سے اٹھ کر دوسرے کی خاطر پیچھے ہٹنا پسندیدہ نہیں ہے، کیونکہ عبادات میں دوسروں کو ترجیح دینا ناپسندیدہ ہے، لیکن مجھے تو اس میں ناپسندیدگی کو کوئی وجہ نظر نہیں، یہ تو ادب و احترام ہے جو مطلوب ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5686
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 911
911. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود ہاں بیٹھ جائے۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت نافع سے دریافت کیا کہ یہ حکم امتناعی جمعہ کے لیے خاص ہے؟ انہوں نے کہا: جمعہ اور غیر جمعہ دونوں کے لیے یہی حکم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:911]
حدیث حاشیہ: تعجب ہے ان لوگوں پر جو اللہ کی مساجد حتیٰ کہ کعبہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ثواب کے لیے دوڑتے ہیں اور دوسروں کو تکلیف پہنچا کر ان کی جگہ پر قبضہ کر تے ہیںبلکہ بعض دفعہ جھگڑا فساد تک نوبت پہنچاکر پھر وہاں نماز پڑھتے اور اپنے نفس کو خوش کرتے ہیں کہ وہ عبادت الٰہی کر رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ انہوں نے عبادت کا صحیح مفہوم نہیں سمجھا بلکہ بعض نمازی تو ایسے ہیں کہ ان کو حقیقی عبادت کا پتہ نہیں ہے اللھم ارحم علی أمة حبیبك صلی اللہ علیه وسلم۔ یہاں مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ مسجد خدا کی ہے کسی کے باوا دادا کی ملک نہیں جو نمازی پہلے آیا اور کسی جگہ بیٹھ گیا وہی اس جگہ کا حقدار ہے، اب بادشاہ یا وزیربھی آئے تو اس کو اٹھانے کا حق نہیں رکھتا۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 911
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6270
6270. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے اس سے منع فرمایا تھا کہ کسی شخص کو اس کی نشست سے اٹھایا جائے کہ کوئی دوسرا اس کی جگہ پر بیٹھے لیکن وسعت اور کشادگی پیدا کرکے دوسرے کو بیٹھنے کا موقع دو۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی آدمی اپنی جگہ سے اٹھے پھر وہ (دوسرا) اس جگہ پر بیٹھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6270]
حدیث حاشیہ: مجلس کے آداب میں سے یہ اہم ترین ادب ہے جس کی تعلیم اس حدیث میں دی گئی ہے آیت باب بھی اسی پاک تعلیم پر مشتمل ہے۔ قلت لفظ ابن عمر علی قتادة کانوا یتنافسو ن في مجلس النبي صلی اللہ علیه و سلم إذا راوہ مقبلا فسبقوا علیهم فأمرهم اللہ تعالیٰ أن یوسع بعضهم لبعض (فتح) یعنی صحابہ کرام جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریف لاتے ہوئے دیکھتے تو وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور جگہ پکڑنے کی کوشش کرتے تھے اس پر ان کو مجلس میں کھل کر بیٹھنے کا حکم دیا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6270
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:911
911. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود ہاں بیٹھ جائے۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت نافع سے دریافت کیا کہ یہ حکم امتناعی جمعہ کے لیے خاص ہے؟ انہوں نے کہا: جمعہ اور غیر جمعہ دونوں کے لیے یہی حکم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:911]
حدیث حاشیہ: آداب جمعہ میں سے ہے کہ آدمی کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ جہاں جگہ ملے وہاں بیٹھ جائے، دھکم پیل نہ کرے۔ حدیث میں جمعہ کے دن کی شرط نہیں ہے، البتہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی شخص جمعہ کے دن اپنے بھائی کو وہاں سے اٹھا کر خود وہاں نہ بیٹھے، البتہ گنجائش پیدا کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ “(صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5688 (2178) اگر کسی کو اس کی جگہ سے اٹھانے کا کام تکبر اور غرور کی وجہ سے کیا ہے تو انتہائی معیوب ہے اور اگر ذاتی ترجیح و فضیلت یا اپنی قدرومنزلت کام میں لاتے ہوئے ایسے کیا ہے تو بھی انتہائی شناعت و قباحت کا حامل ہے۔ (فتح الباري: 505/2) واضح رہے کہ زبان سے کہہ کر بھی نہ اٹھائے اور اپنی ظاہری وجاہت کی وجہ سے بھی اٹھنے کا اشارہ نہ کرے۔ دونوں صورتیں منع ہیں۔ چونکہ مساجد اللہ کا گھر ہیں، ان میں سب لوگ برابر کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے جو شخص پہلے جس جگہ بیٹھ گیا وہ اس کا زیادہ حقدار ہے، ہاں اگر کوئی اہل علم کے لیے ایثار کرتے ہوئے وہاں سے خود اٹھ جائے اور کسی اہل علم کو خود اپنی جگہ پر بٹھا دے تو ایسا کرنا شرعاً ممنوع نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 911
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6269
6269. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کے بیٹھنے کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ پھر خود وہاں بیٹھ جائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6269]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں کسی شخص کو اس کی جگہ سے اٹھانے کی ممانعت بیان ہوئی ہے۔ اگر وہ دوبارہ آنے کی نیت سے خود اٹھ کر چلا جاتا ہے تو بھی کسی دوسرے کو وہاں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”جو شخص اپنی جگہ سے اٹھ کر جائے اور پھر واپس لوٹ آئے تو وہی اس جگہ کا زیادہ حق دار ہے۔ “(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4853) لیکن جانے والے کو چاہیے کہ جگہ پر کوئی علامت کپڑا وغیرہ چھوڑ جائے تاکہ دوسروں کو معلوم ہو جائے وہ واپس آنا چاہتا ہے بصورت دیگر اس کی جگہ پر کوئی دوسرا بیٹھ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6269
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6270
6270. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے اس سے منع فرمایا تھا کہ کسی شخص کو اس کی نشست سے اٹھایا جائے کہ کوئی دوسرا اس کی جگہ پر بیٹھے لیکن وسعت اور کشادگی پیدا کرکے دوسرے کو بیٹھنے کا موقع دو۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی آدمی اپنی جگہ سے اٹھے پھر وہ (دوسرا) اس جگہ پر بیٹھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6270]
حدیث حاشیہ: (1) پہلے سے بیٹھا ہوا شخص ہی زیادہ حق دار ہے کہ وہ اپنی جگہ پر بیٹھے۔ ہاں، اگر اٹھنے والا اپنی خوشی سے ایسا کرے تو جائز ہے دوسرا وہاں بیٹھ جائے جیسا کہ حدیث میں ہے: ”کسی کی عزت کی جگہ پر بیٹھنا جائز نہیں الا یہ کہ وہ خوداجازت دے۔ “(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1534(673)(2) اجازت ملنے کے باوجود تقویٰ اور پرہیز گاری کا تقاضا ہے کہ وہاں نہ بیٹھے بلکہ اسی کو وہاں بیٹھنے کا موقع دے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق حدیث میں ہے کہ اگر کوئی ان کے لیے مجلس میں اٹھتا اور انھیں وہاں بیٹھنے کا کہتا تو وہ وہاں نہ بیٹھے۔ (الأدب المفرد، حدیث: 1153) اسی طرح حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں ہے کہ ایک دفعہ وہ گواہی دینے کے لیے تشریف لائے تو ایک آدمی مجلس میں ان کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تو انھوں نے اس جگہ بیٹھنے سے انکار کر دیا اور حدیث بیان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4827)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6270