فوائد و مسائل سوال: سورۂ نور میں ہے:
«وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ» [24-النور:32] اور سورۂ زمر میں ہے
«قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّـهِ» [39-الزمر:53] ان دونوں آیات میں
«عباد» کا لفظ غلام اور خادم کے معنی میں استعمال ہوا ہے نہ کہ عبادت گزار کے معنوں میں، لہٰذا ان آیات کی روشنی میں عبدالمصطفیٰ، عبدالرسول یا عبدالنبی وغیرہ ہ نام رکھنے میں کیا مضائقہ ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب: لفظ
«عبد» ایک مشترک لفظ ہے جس کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے بھی آتے ہیں اور خادم و غلام کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ جب عبد کی اضافت و نسبت غیر اللہ کی طرف ہوتی ہے تو اس کا مطلب خادم اور غلام ہی ہوتا ہے جیسا کہ سورۂ نور میں
«عباد» کی نسبت
«كم» ضمیر کی طرف ہے۔ لیکن نام اور تسمیہ کے محل پر عموماً یہ لفظ عبادت کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اس لیے ایسے مواقع پر اس کا استعمال درست نہیں۔ کیونکہ اس میں شرک کا شائبہ پایا جاتا ہے۔
کئی ایک ایسی احادیث صحیحہ ہیں جن میں اسماء کے تعین کے وقت عبد کی اضافت اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے کہ:
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«احب الاسماء الي الله عزوجل عبدالله وعبدالرحمن» ” اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔
“ [ابن ماجه، كتاب الادب، باب ما يستحب من الاسماء 3728، مسلم 2132] ان دونوں ناموں میں لفظ عبد کی اضافت بالترتیب لفظ اللہ اور الرحمن کی طرف ہے اور یہ دونوں باری تعالیٰ کے نام ہیں۔ وہ اسماء جن میں عبد کی اضافت غیر اللہ کی جانب تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بدل ڈالا تھا جیسا کہ:
◈ امام ابن عبدالبر الاستیعاب میں لکھتے ہیں:
«عبدالله بن ابي قحافة ابوبكر الصديق رضى الله عنه كان اسمه فى الجاهلية عبدالكعبة فسماه رسول الله صلى الله عليه وسلم عبدالله .» ” سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام دور جاہلیت میں عبدالکعبہ تھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبداللہ رکھا۔
“ اسی طرح سیدنا عبدالرحمن بن عوف کا نام زمانہ جاہلیت میں عبدعمرو تھا۔ بعض نے کہا: عبدالکعبہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبدالرحمن رکھ دیا۔
[الاستيعاب: 2/ 387] ◈ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ ان کا نام دور جاہلیت میں عبدشمس تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر عبدالرحمن رکھ دیا۔
[الاصابه: 4 / 200، الاستيعاب: 4/ 200۔ 207] ❀ ابن ابی شیبہ میں حدیث ہے شریح بن ہانی بیان کرتے ہیں:
«وفد النبي صلى الله عليه وسلم في قومه فسمعهم يسمون رجلا عبد الحجر، فقال له: ما اسمك؟ قال: عبد الحجر، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما أنت عبد الله» ” ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ یہ لوگ ایک شخص کو عبدالحجر کے نام سے پکار رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھا:
” تیرا کیا نام ہے
“ اس نے کہا:
” عبدالحجر۔
“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” (آج سے) تیرا نام عبداللہ ہے۔
“ [ابن ابي شيبة، كتاب الادب، باب تفسير الاسماء 25892] ❀ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«تعس عبدالدينار وعبدالدرهم وعبد القطيفة» ” درہم و دینار اور چادر کا بندہ تباہ ہو گیا۔
“ [ابن ماجه، كتاب الزهد، باب فى المكثرين 4135، بخاري الجهاد و السير، باب الحراسته فى الغزو فى سبيل الله 2886] ↰ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عبد کی اضافت اسماء میں جب غیر اللہ کی طرف ہوتی ہے تو یہ لفظ عبادت کے معنوں میں مستعمل ہوتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ناموں کو بدل دیا تھا کیونکہ یہ شرکیہ نام ہیں۔ اگر انھیں شرکیہ نہ سمجھا جائے تو پھر ان میں شرک کی بو ضرور موجود ہے۔
◈ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ومنها انهم كانوا يسمعون ابناءهم عبدالعزي وعبد شمس ونحو ذلك وقد ثبت فى احاديث لا تحصي ان النبى صلى الله عليه وسلم غير اسماء الصهابة عبدالعزي وعبد شمس ونحوهما الي عبدالله وعبدالرحمن وما اشبههما فهذه اتباح وقوالب للشرك نهي الشارع عنها لكونها وقالب له والله اعلم» ’مشرک کی شرک کی اقسام میں سے ایک یہ تھی کہ لوگ اپنی اولاد کے نام عبدالعزیٰ اور عبدشمس وغیرہ رکھتے تھے اور بے شمار احادیث سے ثابت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ناموں کو عبدالعزیٰ اور عبد شمس سے بدل کر عبداللہ اور عبدالرحمن وغیرہ رکھا۔ یہ شرک کے دروازے اور سانچے ہیں۔ شرع میں ان ناموں سے اسی لیے منع کیا گیا ہے کہ یہ شرک کے شانچے ہیں۔ واللہ اعلم۔
“ اسی طرح حنفی علمائے کرام میں سے
◈ ملا علی قاری مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ میں رقمطراز ہیں:
«ولا يجوز عبدالحارث ولا عبدالنبي ولا عبرة بما شاع فيما بين الناس» ” عبدالحارث اور عبدالنبی وغیرہ نام رکھنا جائز نہیں اور لوگوں میں جو یہ نام رائج ہیں تو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔
“ [مرقاة شرح مشكوة:513/8 تحت جديد رقم 4752] ↰ ملا علی قاری کی اس تصریح میں یہ بات عیاں ہو گئی کہ عبدالحارث اور عبدالنبی وغیرہ نام رکھنے جائز نہیں۔
بعض حضرات کا اس آیت «قل يا عبادي الذين اسرفوا علي انفسهم» سے یہ استدلال کرنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں کہ ” اے میرے بندو!“
یہ استدلال سراسر باطل ہے اور قرآن حکیم کے خلاف ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُؤْتِيَهُ اللَّـهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِي مِنْ دُونِ اللَّـهِ وَلَـكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ» ” کسی انسان کے یہ لائق نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کی بجائے تم میرے بندے بن جاؤ۔ وہ تو یہی کہے گا کہ سچے ربانی بنو جیسا کہ اس کتاب کی تعلیمات کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔
“ [3-آل عمران:79] ↰ اس آیت کریمہ میں صاف فرمایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائق نہیں کہ وہ لوگوں سے کہیں کہ تم میرے عبد بن جاؤ۔ اس بات کی مزید تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات سے ہوتی ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا يقولن احدكم: عبدي وامتي كلكم عبيد الله وكل نسائكم إماء الله ولكن ليقل غلامي وجاريتي وفتاي وفتاتي ولا يقل العبد: ربي ولكن ليقل: سيدي» ” ہرگز تم میں کوئی شخص نہ کہے کہ میرا بندہ اور میری لونڈی۔ سب مرد تمھارے اللہ کے بندے اور تمھاری سب عورتیں اللہ کی لونڈیاں ہیں بلکہ یوں کہے کہ میرا غلام اور میری لڑکی، میرا خادم اور میری خادمہ اور غلام مالک کو
” ربی
“ (میرا رب) نہ کہے بلکہ مالک کو
” سیدی
“ کہے۔
“ [مسلم، كتاب الالفاظ من الادب وغيرها، باب حكم اطلاق لفظة العبد والامة والمواليٰ والسيد 5875،5874] ↰ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی فرد کو اس بات کی اجازت نہیں کہ کسی دوسرے شخص کو
«عبدى» (میرا بندہ) کہے اور جس کام سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہو، کیا اس کا ارتکاب کر سکتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ
«عبد» کا لفظ غلام و خادم کے معنوں میں مستعمل ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے:
«لا يقل العبد ربي» لیکن پھر بھی کسی کو اجازت نہیں دی کہ وہ
«عبدی» کہے کہ کسی فرد کی نسبت عبودیت میں اپنی طرف کرے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف اضافت درست ہے۔ غیر اللہ کی طرف اس کی اضافت کر کے اسماء رکھنا جائز نہیں، یہ کم از کم شرک کی بو سے خالی نہیں۔
↰
«قل يا عبادي الذين» میں لفظ
«قل» یعنی
” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں
“ کا مطلب یہ ہے کہ آگے جو
«يا عبادي» ہے اس کی نسبت فرمان خداوندی کی طرف ہے نہ کہ یہ مطلب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بندوں کی اضافت اپنی طرف کر رہے ہیں۔ اس کی ممانعت سورۂ آل عمران کی آ یت
[79] جو اوپر مذکو ر ہوئی ہے اس میں بھی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیث میں بھی اور مزاج قرآن کے بھی خلاف ہے کیونکہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ساری زندگی غیر اللہ کی عبودیت سے منع کرتے رہے اور عبدالعزیٰ و عبدالشمس جیسے اسماء کو بدلتے رہے تو کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ عباد کی اضافت اپنی طرف کر کے عبدالنبی یا عبدالمصطفیٰ کہتے۔
↰ اور سورۂ نور کی آیت
[32] میں
«عبادكم» سے مراد خادم ہی ہے جیسا کہ لفظ
«اماء» کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور اس کی توضیح مذکورہ حدیث ہی میں ہو جاتی ہے جس میں خادم کو عبد کہا گیا ہے لیکن اس کی اضافت اپنی طرف کر کے بلانے کی کسی کو اجازت نہیں دی گئی بلکہ
«لا يقولن احدكم عبدي» کہہ کر ممانعت کر دی ہے۔ لہٰذا عبدالمصطفیٰ، عبدالنبی، عبدالرسول وغیرہ نام رکھنا ناروا اور ناجائز ہیں۔ کسی طرح بھی درست نہیں۔