حجاج بن شاعر نے کہا: ضحاک بن مخلد نے مجھے ایک رقعے سے حدیث بیان کی، اسے میرے سامنے رکھا پھر اسے پڑھا، کہا: مجھے حنظلہ بن عثمان نے اس کے بارے میں بتایا، کہا: ہمیں سعید بن میناء نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: کہ جب (مدینہ کے گرد) خندق کھودی گئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوکا پایا۔ میں اپنی بیوی کے پاس لوٹا اور کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بھوکا پایا ہے۔ اس نے ایک تھیلا نکالا جس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارے پاس بکری کا پلا ہوا بچہ تھا، میں نے اس کو ذبح کیا اور میری عورت نے آٹا پیسا۔ وہ بھی میرے ساتھ ہی فارغ ہوئی میں نے اس کا گوشت کاٹ کر ہانڈی میں ڈالا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پلٹنے لگا تو عورت بولی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے سامنے رسوا نہ کرنا (کیونکہ کھانا تھوڑا ہے کہیں بہت سے آدمیوں کی دعوت نہ کر دینا)۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور چپکے سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جو کا آٹا جو ہمارے پاس تھا، تیار کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر تشریف لائیے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا اور فرمایا کہ اے خندق والو! جابر نے تمہاری دعوت کی ہے تو چلو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی ہانڈی کو مت اتارنا اور آٹے کی روٹی مت پکانا، جب تک میں نہ آ جاؤں۔ پھر میں گھر میں آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے آگے تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے۔ میں اپنی عورت کے پاس آیا، وہ بولی کہ تو ہی پریشان ہو گا اور لوگ تجھے ہی برا کہیں گے۔ میں نے کہا کہ میں نے تو وہی کیا جو تو نے کہا تھا (لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کر دیا اور سب کو دعوت سنا دی) میں نے وہ آٹا نکالا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لب مبارک اس میں ڈالا اور برکت کی دعا کی، پھر ہماری ہانڈی کی طرف چلے اور اس میں بھی تھوکا اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد (میری عورت سے) فرمایا کہ ایک روٹی پکانے والی اور بلا لے جو تیرے ساتھ مل کر پکائے اور ہانڈی میں سے ڈوئی نکال کر نکالتی جا، اس کو اتارنا مت۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہزار آدمی تھے، پس میں قسم کھاتا ہوں کہ سب نے کھایا، یہاں تک کہ چھوڑ دیا اور لوٹ گئے اور ہانڈی کا وہی حال تھا، ابل رہی تھی اور آٹا بھی ویسا ہی تھا، اس کی روٹیاں بن رہی تھیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، جب خندق کھودی جا رہی تھی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھوک کا اثر محسوس کیا تو میں اپنی بیوی کی طرف لوٹا اور اس سے پوچھا: کیا تیرے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت بھوک لگی ہے، اس نے مجھے ایک چمڑے کا تھیلا پیش کیا، جس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارے پاس ایک چھوٹا سا پالتو چھترا تھا، میں نے اسے ذبح کیا اور اس نے جو پیسے اور میرے ساتھ ہی اس سے فارغ ہو گئی، میں نے گوشت چھوٹا چھوٹا کر کے ہانڈی میں ڈالا، پھر واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیا، اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھیوں سمیت لا کر مجھے رسوا نہ کرنا، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سرگوشی کی، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے اپنا ایک چھوٹا سا پالتو چھترا ذبح کیا اور بیوی نے ہمارے پاس ایک صاع جو تھے، پیس لیے ہیں تو آپ چند ساتھیوں کے ہمراہ تشریف لے آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا: ”اے خندق والو! جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمہاری دعوت کی ہے تو جلدی کرو“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ہانڈی ہرگز نہ اتارنا اور آٹے کی روٹیاں نہ پکانا، حتیٰ کہ میں آ جاؤں۔“ میں چل پڑا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے آگے چل پڑے، حتیٰ کہ میں بیوی کے پاس پہنچ گیا، (اس کو صورت حال بتائی) اس نے کہا: تیری وجہ سے ایسا ہوا تو ہی رسوا ہو گا، میں نے کہا: میں نے تو تیری بات پر عمل کیا تھا، اس نے آپ کے سامنے گندھا ہوا آٹا پیش کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں لعاب مبارک ڈالا اور برکت کی دعا فرمائی، پھر آپ نے ہماری ہنڈیا کا رخ کیا، اس میں لعاب دہن ڈالا اور برکت کی دعا فرمائی، پھر فرمایا: ”ایک روٹی پکانے والی بلا لو، وہ تمہارے ساتھ روٹیاں پکائے اور اپنی ہانڈی سے چمچہ سے سالن نکالنا اور اس کو چولہے سے نہ اتارنا۔“ آپ کے ساتھی ایک ہزار تھے، میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں، سب نے کھایا، حتی کہ اس کو باقی چھوڑ کر چلے گئے اور ہماری ہانڈی پہلے کی طرح جوش مار رہی تھی اور ہمارا آٹا اس طرح پکایا جا رہا تھا، جو لفظ ضحاک نے کہا۔
جابرا قد صنع سؤرا فحي هلا بكم لا تنزلن برمتكم ولا تخبزن عجينتكم حتى أجيء فجئت وجاء رسول الله يقدم الناس حتى جئت امرأتي فقالت بك وبك فقلت قد فعلت الذي قلت لي فأخرجت له عجينتنا فبصق فيها وبارك ثم عمد إلى برمتنا فبصق فيها وبارك ثم قال ادعي خابزة فلتخبز معك و
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5315
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے ساتھیوں کا لحاظ رکھنا چاہیے، وہ ان کو بھوکا محسوس کرے اور اس کے پاس گنجائش ہو تو اس کو ان کی بھوک مٹانے کا انتظام کرنا چاہیے اور اتنے ہی ساتھیوں کو دعوت دینا چاہیے، جن کا آسانی کے ساتھ انتظام کر سکے، تاکہ بعد میں رسوائی نہ ہو، اس لیے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی سلیقہ شعار بیوی نے اپنے خاوند کو تلقین کی کہ زیادہ ساتھیوں کو دعوت دے کر مجھے ذلیل و رسوا نہ کرنا، حضرت جابر نے اس کی بات پر عمل کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی مقدار سے آگاہ کر کے دو تین ساتھیوں کے ساتھ آنے کی دعوت دی، لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا، اس لیے آپ نے تمام موجود ساتھیوں کو دعوت کے لیے چلنے کے لیے کہا اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو کہا، میرے آنے تک روٹیاں نہ تیار کرنا اور نہ ہانڈی اتارنا، حضرت جابر رضی اللہ عنہ بشری تقاضوں کے مطابق ایک ہزار ساتھیوں کو دیکھ کر پریشان ہو گئے، بیوی کو جا کر صورت حال سے آگاہ کیا، اس نے کہا یہ سب کچھ تیرا کیا دھرا ہے، اب سزا بھگتو، ذلیل و خوار ہو، انہوں نے کہا، میں نے تو تیری بات پر عمل کرتے ہوئے، آپ کو کھانے کی مقدار بتا دی تھی اور دو تین ساتھیوں کے ساتھ آنے کے لیے کہا تھا تو اس نے کہا تو پھر ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے، اس طرح اس نے میری پریشانی دور کر دی اور آپ کے لعاب دہن کی برکت اور دعا کے نتیجہ میں چند افراد کا کھانا ایک ہزار کے لیے کافی ہو گیا اور پھر بھی ختم نہ ہوا بلکہ سارا ہی بچ رہا اور اس سے ایک طرف کھانے میں اضافے کے معجزے کا اظہار ہوا تو دوسری طرف حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی کی عقل مندی اور اللہ کے رسول پر یقین و اعتماد کا بھی اظہار ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے ساتھیوں سے محبت کا بھی پتہ چلا کہ آپ نے ان کو بھوکے چھوڑ کر خود کھا لینا گوارا نہ فرمایا، اللہ تعالیٰ سے دعا فرما کر سب کو کھلایا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5315
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3070
´فارسی یا اور کسی بھی عجمی زبان میں بولنا` «. . . وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَاخْتِلاَفُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ}، {وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ} . . . .» ”. . . اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا «واختلاف ألسنتكم وألوانكم»”(اللہ کی نشانیوں میں) تمہاری زبان اور رنگ کا اختلاف بھی ہے۔“ اور (اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ) «وما أرسلنا من رسول إلا بلسان قومه»”ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا ‘ لیکن یہ کہ وہ اپنی قوم کا ہم زبان ہوتا تھا۔““[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 3059] «. . . سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَبَحْنَا بُهَيْمَةً لَنَا وَطَحَنْتُ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، فَتَعَالَ أَنْتَ وَنَفَرٌ، فَصَاحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا أَهْلَ الْخَنْدَقِ إِنَّ جَابِرًا قَدْ صَنَعَ سُؤْرًا فَحَيَّ هَلًا بِكُمْ. . . .» ”. . . جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے (جنگ خندق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوکا پا کر چپکے سے) عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے ایک چھوٹا سا بکری کا بچہ ذبح کیا ہے۔ اور ایک صاع جو کا آٹا پکوایا ہے۔ اس لیے آپ دو چار آدمیوں کو ساتھ لے کر تشریف لائیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بآواز بلند فرمایا ”اے خندق کھودنے والو! جابر نے دعوت کا کھانا تیار کر لیا ہے۔ آؤ چلو ‘ جلدی چلو۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 3070]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3070 کا باب: «بَابُ مَنْ تَكَلَّمَ بِالْفَارِسِيَّةِ وَالرَّطَانَةِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا اس سے آپ یہ ثابت فرمانا چاہتے ہیں کہ دنیا کی ہر بولی سیکھنا اور بولنا درست ہے اور زبانوں سے نفرت کرنا یہ اعراض ہے اللہ کی نعمت سے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «قول الله عز و جل: ﴿وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ﴾[الروم: 22] وقال عز و جل: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ﴾[إبراهيم: 4] كأنه اشار إلى ان النبى صلى الله عليه وسلم كان يعرف الألسنة لأنه أرسل إلى الأمم كلها على إختلاف ألسنتهم و جميع الأمم قدمه بالنسبة إلى عموم رسالته فاقتضى أن يعرف ألسنتهم ليفهم عنهم و يفهموا عنه.»[فتح الباري، ج 6، ص: 226] ”اللہ تعالی کا فرمان: ”تمہاری زبانوں اور رنگ کا اختلاف بھی (اللہ کی نشانیوں میں سے) ہے“، اور اللہ تعالی کا فرمان: ”ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی قوم کی زبان میں۔“ گویا کہ یہ اشارہ اس طرف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام زبانوں کو جانتے تھے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معبوث فرمایا گیا تھا تمام امت کیلئے (چاہے وہ) اختلاف زبان کا ہو، پس تمام امتوں اور اقواموں کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ہے تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بات سمجھیں اور وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سمجھیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے مطابق آیت کا عموم یہ متقاضی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام امتوں کے لئے نبی تھے، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا عموم ہر فرد، ہر جماعت اور زبان کے بولنے والوں کے لئے ہے۔ علامہ الزمخشری رقمطراز ہیں: «ليبين لهم: أى ليفقهوا عنه ما يدعوهم إليه فلا تكون لهم حجة على الله.»[الكشاف، ج 3، ص: 479] یہ ان کے لئے واضح کر دیا گیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سمجھیں جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بلاتے ہیں تاکہ اللہ تعالی پر کسی قسم کی کوئی حجت باقی نہ رہے (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی انہیں کی زبان میں بھیجا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان تک اللہ کا پیغام پہنچائیں، اگر یہ نہ مانیں تو بروز قیامت ان کے پاس کوئی حیلہ یا حجت نہ رہے)۔ امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان آیات میں دلیل ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام زبانوں کو جانتے تھے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت یکساں تھیں جنوں اور انسانوں کے لئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بات کو سمجھیں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو۔ [ارشاد الساري، ج 5، ص: 442] ان اقتباسات سے ترجمۃ الباب اور آیات میں تطبیق ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں اور جنوں کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں، لہذا ان میں مختلف زبانیں پائی جاتی ہیں اور دین کی دعوت کے لئے ہر زبان کو سیکھنا یہ ضروری امر ہے تاکہ «بلغوا عني و لو آية» کے حکم پر عمل ہو سکے۔ ہاں البتہ ضروری ہے کہ اس بات کو بھی سمجھا جائے کہ یہ ضروری قاعدہ نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام زبانیں بولنا آتی تھیں، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تمام زبانوں کے لئے ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر زبان میں بات کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں مگر آیت اور احادیث کے عموم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زبان سیکھنے اور اس کے بولنے میں کوئی قباحت نہیں، بلکہ اگر دعوت کے اغراض و مقاصد کے لئے سیکھا جائے تو اجر ہی اجر ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”یہ یقینی نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر زبان میں گفتگو فرماتے تھے۔“[فتح الباري، ج 6، ص: 226] مذکورہ باب کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین احادیث کو ذکر فرمایا ہے جس کو بطور دلیل پیش فرمایا کہ عجمی وغیرہ کی زبان میں گفتگو کرنا جائز ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس کا تعلق ترجمۃ الباب سے کچھ اس طرح سے ہے کہ جب سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ کے لیے بکری کا گوشت اور ایک صاع جو کا آٹا پکایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خندق والوں کو باآواز پکارا «أن جابرا قد صنع سؤرًا» یعنی جابر نے آپ کے لئے مہمان نوازی کا سامان تیار کیا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں لفظ «سؤرًا» موجود ہے جس کے بارے میں امام اسماعیلی فرماتے ہیں: «السؤر كلمة بالفارسية»، کہ یہ لفظ «السؤر» فارسی کا لفظ ہے۔ [فتح الباري، ج 6، ص 226] امام الطبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ”یہ لفظ «السؤر» فارسی کا لفظ ہے۔“[فتح الباري، ج 6، ص: 226] ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «السؤر: الوليمة، بالفارسية.»[المستواري، ص: 182] یہ لفظ «السؤر»: ولیمہ، فارسی کا لفظ ہے۔ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «السؤر» یہ لفظ فارسی کا ہے۔ [كشف المشكل 470، ص: 178] الامام السیوطی رحمہ اللہ فر ماتے ہیں: «السؤر» یہ لفظ فارسی کا ہے جو حبشی زبان میں بولا جاتا ہے۔ [التوضيح شرح للجامع الصحيح، ج 5، ص: 2024] امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «الطعام مطلقا وهى لفظة فارسية.»[شرح كرماني، ج 12، ص: 53] «السورا» یہ مطلق کھانے کو کہا جاتا ہے جو کہ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «السؤرا» کا لفظ فرمایا جو کہ فارسی زبان کا ہے۔ سیدہ ام خالد رضی اللہ عنہا کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنہ سنہ کے لفظ فرمائے۔ جس کے معنی عمدہ کے ہیں جو کہ حبشی زبان میں بولا جاتا ہے۔ تیسری حدیث سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب انہوں نے صدقے کی کھجور کھانے کی کو شش فرمائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: «كخ كخ» ۔ یہ لفظ بھی عربی کا نہیں ہے۔ علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ممکن ہے یہ لفظ بھی غیر عجمی ہو اور حروف صوتیہ کے قبیل سے ہو۔ لیکن علامہ عینی رحمہ اللہ نے اس اعتراض کے جواب پر فرمایا: یہ اعتراض بھی بےمحل ہے اس لئے کہ لفظ «كخ» اسمائے افعال کے قبیل سے ہے نہ کہ اسمائے صوتیہ کے قبیل سے ہے، لہذا یہ لفظ عجمی ہے۔ [عمدة القاري، ج 15 ص: 11] بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «وجه الدلالة على جوازه مطابقة حديث الحسن للترجمة له خاطبه بما فيه و يخاطب به الاطفال خاصة ولا تخاطب به الرجال فاشبه بما يخاطب به العجمي . . . . .»[مناسبات تراجم البخاري، ص: 91] بدرالدین رحمہ اللہ نے واضح فرمایا: یہ لفظ بچوں کے مخاطب کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جو کہ عجمی زبان کا لفظ ہے لہذا تینوں احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عجمی زبان میں بات کرنا ثابت ہوتا ہے، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔ فائدہ 1: بعض بے بنیاد روایات میں عجمی زبان و فارسی زبان بولنے یا سیکھنے پر مذمت کی گئی ہے، لیکن تحقیق کی نگاہ سے ان روایات کا صحیح ہونا ثابت نہیں ہو گا۔ مثلا: «كلام اهل النار بالفارسية» اسی طرح کی ایک روایت امام حکم نے کی ہے: «من تكلم بالفارسية زادت فى خبثه و نقصت من مروته» ”یعنی جس نے فارسی میں بات کی اس کی خباثت بڑھے گی اور مروت میں کمی ہو گی۔“[الآلى، ج 2، ص: 281 - كتاب الموضوعات، ج 2، ص: 395] «(الفوائد المجموعة، 221) (الكامل لابن عدي، ج 4، ص: 109) (النكت البديعات، 200) (ميزان الاعتدال، 4000)» حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مندرجہ بالا روایت نقل کرنے کے بعد: «و سنده واه» اس کی سند ضعیف اور بے بنیاد ہے۔ [فتح الباري، ج 6، ص: 227] ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس کی سند میں طلحہ ہے جو منفرد ہے اور اس روایت کو عمر بن یزید کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا، مزید فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: «طلحه منكر الحديث» طلحہ منکر الحدیث ہے۔ [كتاب الموضوعات، ج 2، ص: 126] ایک اور روایت جو اس مسئلے سے مطابقت رکھتی ہے جس کو ابن حبان رحمہ اللہ نے «المجروحين» میں ذکر فرمایا ہے کہ: «أبغض الكلام إلى الله عز و جل الفارسية، و كلام الشياطين بالخوزية، و كلام اهل النار بالنجارية (بالنجارية)، و كلام أهل الجنة العربية.» [المجروحين لابن حبان، ج 1، ص: 129] [الفوائد المجموعة، 414] [تنزيه الشريعة، ج 1، ص: 137] [لسان الميزان، ج 1، ص: 406، رقم: 1273] [الموضوعات لابن الجوزي، ج 2، ص: 265] مندرجہ بالا روایت نقل کرنے کے بعد ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: «هذه الأحاديث كلها موضوعة.» اس قسم کی تمام احادیث موضوع (من گھڑت) ہیں۔ ایک اور روایت جسے امام حاکم رحمہ اللہ نے روایت فرمایا ہے کہ: عربی زبان اچھی طرح بولنے والا، فارسی میں ہرگز بات نہ کرے کیوں کہ یہ نفاق پیدا کرتی ہے۔ اس روایت کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ذکر فرمایا پھر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «و سنده واه» اس کی سند ضعیف ہے (یعنی بے اصل ہے)[فتح الباري، ج 6، ص: 227] علامہ ابن عابدین شامی نے «رد المختار على الرد المختار» میں الولوجیہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ عربی کے علاوہ اللہ تعالی کے ہاں کوئی زبان پسندیدہ نہیں۔ [رد المختار: 521/1] «الولوجيه» کا یہ قول بھی بے بنیاد اور بے اصل ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی زبان میں گفتگو کرنے سے اور اسے سیکھنے سے نہیں روکا، یہ تمام زبانیں اللہ کی طرف سے ہیں اور یہ بھی اس کی کھلی نشانیوں میں سے ہیں، لہذا ممانعت کے بارے میں کوئی روایت پایائے ثبوت تک نہیں پہنچی۔ چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «وقد تظاهرت أحاديث صحيحة بأن رسول الله صلى الله عليه وسلم تكلم بألفاظ غير العربية فيدل على جوازه.»[شرح مسلم للامام النووي، ج 178/2] ”یعنی احادیث صحیحہ سے ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عربی زبان کے علاوہ (دوسری) زبان میں گفتگو فرمائی جو اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔“ فائدہ نمبر 2: اللہ تعالی نے ہر قوم میں ہادی بھیجا ہے تاکہ ان پر حجت کو پورا کیا جائے، آج کے گئے گزرے دور میں اگر ہم دنیا بھر کے مذاہب کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ دین اسلام نے جو عقیدہ توحید کا نظریہ پیش فرمایا ہے یہ ایک مکمل دلیل اور حجت کے ساتھ دنیا کے بڑے بڑے مذاہب میں موجود ہے کیوں کہ یہ اللہ تعالی کا قاعدہ ہے کہ ہر امت میں کوئی نہ کوئی ہادی ضرور بھیجتا ہے جو انہیں ایک اللہ کی طرف موڑ دے، جو ان سے انہی کی زبان میں گفتگو کرے۔ لہذا میں یہاں چند حوالے نظر قرطاس کرتا ہوں، طالب علم ان حوالوں کو ازبر فرما لیں تاکہ غیر مسلموں کو انہی کی کتب سے دعوت دی جائے جو کہ بے حد مفید ہے۔ اللہ تعالی کا تصور ہندو دھرم میں: ➊ صرف اس کی تعریف کرو اور صرف ایک خدا کی عبادت کرو۔ [رگ ويد، كتاب 6، دعا نمبر 45، منتر 16] ➋ وہ مجھے ایسے عظیم خدا کی حیثیت سے جانتے ہیں جو ازل سے ہے۔ [بهگوت گيتا، باب 110، سطر 3] ➌ اس کے والدین میں کو ئی آقا نہیں، اس کی ماں نہیں، اس کا باپ نہیں، اس سے کوئی برتر نہیں۔ [سويد اسواتر اپنشد، باب 6، منتر 9] ➍ اس کا کوئی ثانی نہیں۔ [يجر ويد، باب 32، منتر 3] ➎ اللہ عظیم و طاقتور ہے۔ [اتهروا ويد، كتاب نمبر 20، دي نمبر 58، منتر 3] عیسائیت میں اللہ تعالی کا تصور: ➊ آپ میرے علاوہ کسی اور کو خدا نہ بنانا، آپ کوئی بھی بت نہ بنانا، نہ عکس، چاہے وہ آسمان میں ہو یا زمین کے نیچے پانی میں، آپ کسی کی عبادت نہ کرو کیوں کہ میں غیرت مند خدا ہوں۔ [استثناء، باب 5، فقره 9] ➋ سنو اے ازرائل! ہمارا خدا صرف ایک ہی خدا ہے۔ [مرقس، باب 12، فقره 29] ➌ جو کلام تم میرا سنتے ہو وہ میرا نہیں (یعنی عیسی کا نہیں ہے) بلکہ باپ کا ہے جس نے مجھے بھیجا۔ [يوحنا، باب 10، فقره 1-2] ➍ عیسی فرماتے ہیں: میں شیطان کو بھگاتا ہوں خدا کے حکم سے۔ [متي، باب 12، فقره 28] ➎ عیسی کہتے ہیں: میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتا، جیسا میں سنتا ہوں اس طریقے سے انصاف کرتا ہوں اور میرا انصاف صحیح ہے کیونکہ میں اپنی رضا پر نہیں چلتا، میں اپنے خدا کی رضا پر چلتا ہوں۔ [يوحنا، باب 5، فقره 30] ان فقروں سے عیسائیت کی کتاب میں توحید کے ذکر کا واضح پتہ چلتا ہے۔ سکھ ازم میں اللہ تعالی کا تصور: ایک اللہ کی عبادت کو گرو نانک نے ترجیح دی اور بت پرستی کو گمراہی قرار دیا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ➊ کافر ہوئے بت پرست جائن بت خدائے تس کر کافر آکھیں ہوئے ربئیے گمراہے۔ [جنم ساكهي بهائي بالا، ص: 21] ➋ گرو نانک جی کہتے ہیں: ہر انسان اللہ تعالی سے رابطہ قائم کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے دل کو پاکیزہ بنا دے، اللہ کے نزدیک تمام انسان برابر ہیں اور وہ ان تمام کی زبانیں سمجھتا ہے اور سنتا ہے۔ [چپ جي دياكهيا، ص: 14]، [اديان و مذاهب كا تقابلي مطالعه، ص: 151]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3070
3070. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے (غزوہ خندق کے وقت)عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں نے بکری کا ایک بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جو کا آٹا پیسا ہے، لہٰذا آپ خود اور مزید کچھ ساتھی تشریف لے چلیں۔ نبی ﷺ نے بآواز بلند فرمایا: ”اے اہل خندق!آج جابر ؓ نے تمھارے لیے ضیافت تیار کی ہے، آؤ جلدی چلیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3070]
حدیث حاشیہ: لفظ سوراً فارسی ہے جو آپ نے استعمال فرمایا، اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ فسادات انسانی میں ایک بڑا فساد خطرناک فساد لسانی تعصب بھی ہے۔ حالانکہ جملہ زبانیں اللہ پاک ہی کی پیدا کردہ ہیں۔ اسلام نے سختی کے ساتھ اس تعصب کا مقابلہ کیا ہے۔ آج کے دور میں زبانوں پر بھی دنیا میں بڑے بڑے فساد برپا ہیں جو سب انسانی جہالت و ضلالت و کج روی کے نتائج ہیں۔ جو لوگ کسی بھی زبان سے تعصب برتتے ہیں ان کی یہ انتہائی حماقت ہے۔ لفظ سوراً سے دعوت کا کھانا مراد ہے یہ فارسی لفظ ہے۔ حضرت امام ؒ نے اس حدیث کے ضعف پر بھی اشارہ فرمایا ہے جس میں مذکور ہے کہ دوزخی لوگ فارسی زبان بولیں گے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3070