خالد بن حارث نے کہا: ہمیں ابن جریج نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے یونس بن یوسف نے سلیمان بن یسار سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: (جمگھٹے کے بعد) لوگ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے چھٹ گئے تو اہل شام میں سے ناتل (بن قیس جزامی رئیس اہل شام) نے ان سے کہا: شیخ! مجھے ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "قیامت کے روز سب سے پہلا شخص جس کے خلاف فیصلہ آئے گا، وہ ہو گا جسے شہید کر دیا گیا۔ اسے پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی (عطا کردہ) نعمت کی پہچان کرائے گا تو وہ اسے پہچان لے گا۔ وہ پوچھے گا تو نے اس نعمت کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے تیری راہ میں لڑائی کی حتی کہ مجھے شہید کر دیا گیا۔ (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا۔ تم اس لیے لڑے تھے کہ کہا جائے: یہ (شخص) جری ہے۔ اور یہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس آدمی کو منہ کے بل گھسیٹا جائے گا یہاں تک کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا اور وہ آدمی جس نے علم پڑھا، پڑھایا اور قرآن کی قراءت کی، اسے پیش کیا جائے گا۔ (اللہ تعالیٰ) اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان کر لے گا، وہ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور تیری خاطر قرآن کی قراءت کی، (اللہ) فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا، تو نے اس لیے علم پڑھا کہ کہا جائے (یہ) عالم ہے اور تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ کہا جائے: یہ قاری ہے، وہ کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا حتی کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ آدمی جس پر اللہ نے وسعت کی اور ہر قسم کا مال عطا کیا، اسے لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان لے گا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے ان میں کیا کیا؟ کہے گا: میں نے کوئی راہ نہیں چھوڑی جس میں تمہیں پسند ہے کہ مال خرچ کیا جائے مگر ہر ایسی راہ میں خرچ کیا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے جھوٹ بولا ہے، تم نے (یہ سب) اس لیے کیا تاکہ کہا جائے، وہ سخی ہے، ایسا ہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا، پھر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔"
سلیمان بن یسار بیان کرتے ہیں کہ لوگ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بکھر گئے تو ایک شامی سر برآوردہ یا ناتل نامی شخص نے ان سے کہا، اے شیخ! ہمیں وہ حدیث سنائیے، جو آپ نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، انہوں نے کہا، ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، ”سب سے پہلے قیامت کے دن جس کے خلاف فیصلہ ہو گا، وہ ایک شہید ہونے والا آدمی ہے، اسے لایا جائے گا، تو اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں اسے بتائے گا اور وہ ان کا اقرار کرے گا، اللہ تعالی پوچھے گا، تو نے ان نعمتوں سے کیا کام لیا (کن مقاصد کے لیے ان کو استعمال کیا) ہے وہ کہے گا، میں نے تیری خاطر جہاد کیا، حتیٰ کہ مجھے شہید کر دیا گیا، اللہ فرمائے گا، تو جھوٹ بولتا ہے، تو نے تو صرف اس لیے جہاد میں حصہ لیا، تاکہ تیری جراءت کے چرچے ہوں، تو یہ چرچے ہو گئے، پھر اس کے بارے میں حکم ہو گا اور اسے اوندھے منہ گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے اور ایک آدمی نے علم سیکھا اور سکھایا اور قرآن کی قراءت کرتا رہا، اسے بھی لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتوں کی شناخت کروائے گا اور وہ ان کی شناخت کر لے گا، اللہ اس سے پوچھے گا، تو نے ان سے کیا کام لیا؟ (ان کو کن مقاصد کے لیے استعمال کیا) وہ کہے گا، میں نے علم سیکھا اور اسے سکھایا اور تیری خاطر قرآن کی قراءت کی، اللہ فرمائے گا، تو جھوٹ کہتا ہے تو نے تو علم اس لیے حاصل کیا، تاکہ تجھے عالم کہا جائے گا اور تو نے قرآن پڑھا، تاکہ تجھے قاری کہا جائے گا، تو تیرا یہ مقصد حاصل ہو چکا، (تیرے عالم اور قاری ہونے کا خوب چرچا ہوا) پھر اس کے بارے میں حکم ہو گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور ایک تیسرا آدمی ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے بھرپور دولت سے نوازا ہو گا اور اسے ہر قسم کا مال عنایت کیا ہو گا، اسے بھی لایا جائے گا اور اللہ اسے اپنی نعمتوں سے آگاہ فرمائے گا اور وہ ان کا اعتراف کر لے گا، اللہ تعالیٰ پوچھے گا، تو نے ان سے کیا کام لیا؟ وہ کہے گا، میں نے کوئی ایسا راستہ نہیں چھوڑا، جہاں تجھے خرچ کرنا پسند تھا، مگر تیری رضا کے حصول کی خاطر میں نے وہاں خرچ کیا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تو نے جھوٹ کہا، درحقیقت تو نے یہ سب کچھ اس لیے کیا تاکہ تجھے سخی کہا جائے، (تیری فیاضی اور داد و دہش کے چرچے ہوں) سو تیرا یہ مقصد تجھے حاصل ہو گیا، (دنیا میں تیری سخاوت اور داد و دہش کے خوب چرچے ہوئے) پھر اس کے بارے میں حکم ہو گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4923
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: الناتل: آگے بڑھنے والا، اس سے مراد ناتل بن قیس جزامی ہے، جو فلسطینی تھا۔ فوائد ومسائل: جن اعمال کو شہرت و نمودونمائش کے لیے کیا جاتا ہے، ان میں سب سے پہلے شہید، عالم اور مالدار کے متعلق فیصلہ ہو گا اور ارکان دین، عبادات میں سے سب سے پہلے نماز کے بارے میں فیصلہ ہو گا اور ظلم و ستم کے کاموں میں سے سب سے پہلے خون (قتل) کا فیصلہ ہو گا، اس طرح ہر جگہ اضافی اولیت مراد ہے، کیونکہ ہر چیز کی اولیت اس کی انواع کے اعتبار سے ہوتی ہے اور ان تینوں کو جھوٹ کہا گیا ہے، کیونکہ یہ باتیں خلاف واقعہ تھیں، یہ معصیت ہے یا نہیں، اس سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اس حدیث میں جن تین اعمال کا ذکر ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان اور مال کی قربانی اور علم دین کی تحصیل و تعلیم اور قرآن مجید کی تلاوت، یہ تینوں اعلیٰ درجہ کے عمل ہیں، لیکن اعمال کی روح اور جان اخلاص نیت ہے، اگر اخلاص نیت کے ساتھ یہ عمل ہوں تو پھر بلاشبہ ان کا صلہ جنت کے اعلیٰ درجات اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی ہے، لیکن یہی اعمال جب دکھلاوے اور شہرت و ناموری کے حصول کے لیے کئے گئے، تو یہ سنگین گناہ ٹھہرے اور سب سے پہلے جہنم میں جھونکے جانے کا باعث بنے، لیکن اگر ایک انسان نیک عمل اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے جذبہ کے تحت خلوص نیت سے کرتا ہے اور اس نیک عمل کی شہرت ہو جاتی ہے اور لوگ اس کی تعریف و توصیف کرتے ہیں اور اس سے محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، تو یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آخرت میں ملنے والے اصل انعام واکرام سے پہلے اس دنیا میں نقد صلہ اور اس بندہ کی اللہ کے ہاں مقبولیت و محبوبیت کی ایک علامت اور اس کے لیے خوش خبری ہے، جیسا کہ مسلم شریف میں ہی آگے ایک روایت آرہی ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا، بتلایئے، ایک آدمی نیکی کا کام کرتا ہے اور لوگ اس کی وجہ سے اس کی تعریف کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: "یہ مومن کو جلد (دنیا میں) حاصل ہونے والی خوش خبری ہے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے سنن ترمذی میں ایک روایت ہے، کہ ایک آدمی نے کہا، اے اللہ کے رسول! انسان ایک خیر کا کام کرتا ہے اور اس پر خوش ہوتا ہے اور جب لوگوں کو اس کی نیکی کی اطلاع ملتی ہے، تو وہ اس پر خوش ہوتا ہے، (کہ لوگوں کو میری اچھی بات کی خبر ہوئی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو دو اجر ملیں گے، ایک اجر پوشیدگی اور اخفاء کا اور دوسرا اجر علانیہ اور اظہار کا۔ “
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4923
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 205
´ریاکاری کی ہلاکتیں` «. . . وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِن أول النَّاس يقْضى عَلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ قَالَ كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِأَنْ يُقَالَ جَرِيءٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أَمر بِهِ فسحب على وَجهه حَتَّى ألقِي فِي النَّارِ وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا قَالَ تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَأْتُ فِيكَ الْقُرْآنَ قَالَ كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعلم ليقال عَالِمٌ وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ هُوَ قَارِئٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ - [72] - نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ قَالَ كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ فَعَلْتَ لِيُقَالَ هُوَ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ ثُمَّ أُلْقِيَ فِي النَّارِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن سب سے پہلے شہید کا فیصلہ کیا جائے گا۔ میدان محشر میں اللہ کے سامنے لایا جائے گا ,اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا۔ وہ پہچان لے گا۔ تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم نے ان نعمتوں کے مقابلہ میں کیا عمل کیا اور اس کے شکریہ میں کیا کیا؟ شہید جواب دے گا میں نے تیری راہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ میں شہید کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا «كذبت» تو جھوٹ بکتا ہے (میری راہ میں میری خشنودی کے لۓ جہاد نہیں کیا ہے۔“ بلکہ اس لیے قتال و جہاد کیا ہے تاکہ لوگ کہیں کہ فلاں شخص کیسا بہادر اور پہلوان ہے۔ فقد «قيل» پس تو یہ کہا گیا اور دنیا میں تیری بڑی تعریف و توصیف کی گئی۔ پس حکم دیا جائے گا اور اس کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ دوسرے قاری اور عالم کا حساب لیا جائے گا جب وہ اللہ کے سامنے پیش ہو گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا۔ وہ پہچان لے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماۓ گا۔ «كذبت» تو جھوٹ بولتا ہے تم نے یہ کام میرے لیے نہیں کیا ہے بلکہ اس لیے کیا ہے تاکہ تجھے عالم و قاری کہا جائے۔ لہٰذا تیرا مقصد پورا ہو گیا۔ اس کو بھی منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا، پھر ایک سخی کو لایا جائے گا۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے بہت ساری دولت اور ہر قسم کا مال دے رکھا تھا وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے بھی اپنی نعمتوں کا پہچان کرائے گا۔ وہ پہچان لے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماۓ گا۔ ” «كذبت» تو جھوٹ کہتا ہے بلکہ اس لیے خرچ کیا ہے تاکہ لوگ کہیں کہ فلاں آدمی سخی ہے۔ تجھے یہ کہا گیا پس حکم دیا جاۓ گا, اور منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جاۓ گا۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 205]
تخریج الحدیث: [صحيح مسلم 4923]
فقہ الحدیث: ➊ ریا (دکھاوا) ایسا بڑا گناہ ہے جو تمام نیکیوں کو ختم کر دیتا ہے، لہٰذا ہر شخص کو اس سے بچنا چاہئے، چاہے عالم ہو یا مجاہد و سخی، ورنہ ہر عبادت اور ہر عمل رائیگاں و باطل ہو جائے گا۔ ◄ مولانا محمد سلیمان کیلانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے: ”عمل خواہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو جب تک اس میں نیت کا اخلاص نہ ہو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وہ مقبول نہیں ہوتا، نمود و نمائش سے عمل ضائع ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک آدمی اگر زید کے گھر جا کر اس کا کوئی کام کرے تو اجرت بھی اس سے اسے لینی چاہئے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کام تو زید کا کرے اور اجرت عمرو سے مانگے۔ اسی طرح جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے کام کیا تو وہ اللہ تعالیٰ سے مزدوری کا حقدار ہے اور جس نے کام تو کیا ہو دنیا کو خوش کرنے کے لئے اور آفرین حاصل کرنے کے لئے لیکن ثواب کی توقع اللہ تعالیٰ سے رکھے تو یہ بالکل باطل ہے۔۔۔“[حواشي مشكوٰة ج1 ص245، 246 ح196] ➋ اعمال صالحہ کے مقبول ہونے کی دو شرطیں ضروری ہیں: اول: صرف اللہ کی رضامندی کے لئے پورے خلوص کے ساتھ عمل کیا جائے۔ دوم: کتاب و سنت کے مطابق عمل ہو اور ہر قسم کی بدعات سے بچا جائے۔ ➌ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون (یعنی قتل) کے مقدمات کا فیصلہ ہو گا۔ ديكهئے: [صحيح بخاري: 6533، صحيح مسلم: 1678] ◄ ان روایات کے درمیان تطبیق اس طرح ہے کہ ریا اور دکھاوے والوں میں سب سے پہلے مقتول، عالم اور سخی مالدار کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا، مظالم میں سب سے پہلے قتل کے فیصلے ہوں گے اور عبادات میں سب سے پہلے نماز کا حساب ہو گا۔ «والله اعلم»