شعبہ نے زیاد بن علاقہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے عَرفجہ رضی اللہ عنہ سے سنا، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "جلد ہی فتنوں پر فتنے برپا ہوں گے، تو جو شخص اس امت کے معاملے (نظام سلطنت) کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہے جبکہ وہ متحد ہو تو اسے تلوار کا نشانہ بنا دو، وہ جو کوئی بھی ہو، سو ہو
حضرت عرفجہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، ”واقعہ یہ ہے کہ یقینا ناپسندیدہ امور اور فتنوں کا ظہور ہو گا، تو جو انسان اس امت کے اتحاد و وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا ارادہ کرے، تلوار سے اس کی گردن اڑا دینا، خواہ وہ کسی درجہ کا مالک ہو۔“
سيكون بعدي هنات وهنات فمن رأيتموه فارق الجماعة أو يريد يفرق أمر أمة محمد كائنا من كان فاقتلوه فإن يد الله على الجماعة فإن الشيطان مع من فارق الجماعة يركض
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4796
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) هَنَات وَهَنات: هَنة کی جمع ہے، ہر ناپسندیدہ اور مکروہ کام پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ (2) كَائِنا من كَانَ: کتنے ہی جاہ ومرتبہ اور شہرت کا مالک ہو، اس کو اڑا دو۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امت کی وحدت و یگانت کا معاملہ انتہائی اہم ہے، اس کو برقرار رکھنے کے لیے ظالم و فاسق حکمران کو برداشت کیا جائے گا اور امت میں تفریق پیدا کرنا اتنا سنگین اور ناقابل معافی جرم ہے کہ اگر کوئی بہت بڑی حیثیت اور مقام و مرتبہ والا بھی اس کی خلاف ورزی کرے گا، تو اس کو باز رکھنے کے لیے اگر اس کو قتل بھی کرنا پڑے تو اس سے گریز نہیں کیا جائے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4796
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4025
´جماعت سے الگ ہونے والے شخص کو قتل کرنے کا بیان اور زیاد بن علاقہ کی عرفجہ سے روایت پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔` عرفجہ بن شریح اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر لوگوں کو خطبہ دیتے دیکھا، آپ نے فرمایا: ”میرے بعد فتنہ و فساد ہو گا، تو تم جسے دیکھو کہ وہ جماعت سے الگ ہو گیا ہے یا امت محمدیہ میں افتراق و اختلاف ڈالنا چاہتا ہے، تو خواہ وہ کوئی بھی ہو اسے قتل کر دو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جو جماعت سے الگ ہوا اس کے ساتھ شیطان دو [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4025]
اردو حاشہ: (1) یہ حدیث نبوت کی نشانیوں میں سے ہے۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے خبر دی تھی بعینہٖ اسی طرح فتنے اور فساد ظاہر ہوئے اور یہ سلسلۂ شر تا حال جاری ہے۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْهَا۔ (2) یہ حدیث اس بات کی صریح دلیل ہے کہ امت مسلمہ میں تفرقہ ڈالنے والا ہر شخص واجب القتل ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ حدیث شریف کے الفاظ ہیں: [فَاقْتُلُوْہُ ] یعنی امت محمدیہ میں پھوٹ ڈالنے والے کو قتل کو دو۔ یہ الفاظ صیغۂ امر پر مشتمل ہیں اور جب تک کوئی قرینۂ صارفہ موجود نہ ہو، امر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ چونکہ یہاں کوئی بھی قرینۂ صارفہ نہیں ہے، لہٰذا یہ حکم وجوبی ہے، اس لیے اسلامی حکومت کے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ ایسا مجرم اگر اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو اسے قتل کی سزا دے۔ یاد رہے اسلامی حدود کا نفاذ ہر مسلم ملک کے سربراہ کی ذمہ داری ہے۔ (3) اس حدیث سے اللہ جل شانہ کی صفت ”ید“ کا اثبات ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ویسا ہی ہے جیسا کہ اس کی ارفع و اعلیٰ ذات کے لائق اور شایان شان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ نہ تو مخلوق کے ہاتھ کے مشابہ ہے اور نہ اس کے کوئی دوسرے معنیٰ، یعنی قدرت وغیرہ ہی مراد ہیں جیسا کہ مؤولین کرتے ہیں ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ﴾ ارشاد باری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا اثبات قرآن مجید سے بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ﴾(الملک: 67:1)”ذات بڑی بابرکت ہے وہ جس کے ہاتھ میں تمام بادشاہی ہے۔“ (4) اس حدیث سے جماعت کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اور اس کی مدد و نصرت کبھی بھی جماعت سے الگ نہیں ہوتی، اور جماعت سے مراد دھڑے گروپ اور جماعتیں نہیں بلکہ مسلمانوں کی وہ جماعت مراد ہے جو ایک خلیفہ پر متحد ہو، نیز اس حدیث شریف سے امت مسلمہ کے اندر تفرقہ بازی، پھوٹ اور ان کے نقصان دہ اختلاف کی مضرت اور مذمت بھی واضح ہوتی ہے۔ چونکہ اللہ کا ہاتھ اور اس کی مدد جماعت کے ساتھ خاص ہے۔ جب جماعت پھوٹ اور اختلاف کا شکار ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اس جماعت پر سے اٹھ جائے گا اور شیطان کو اس پر غلبہ حاصل ہو جائے گا، پھر وہی ان کا ہاتھ بن جائے گا۔ اور جس کا ساتھی شیطان بن جائے تو وہ بہت ہی برا ساتھی ہے۔ ﴿وَمَنْ يَكُنْ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا﴾(النساء: 4:38) و اللّٰہ أعلم۔ (5) اس شخص سے مراد یا تو مرتد ہے یا باغی۔ مرتد تو وہ ہے جو مسلمان ہونے کے بعد اسلام سے نکل جائے۔ ایسا شخص اسلام کا دشمن بن جائے گا اور وہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرے گا۔ تجربہ یہی بتاتا ہے، لہٰذا اگر وہ توبہ نہ کرے تو قتل کر دیا جائے۔ اور باغی سے مراد وہ ہے جو مسلمانوں کے ایک امیر پر متفق ہو جانے کے بعد الگ جتھہ بندی کر لے۔ چونکہ ایسا شخص بھی امت مسلمہ کا دشمن ہے اور ان کو آپس میں لڑا کر تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے، لہٰذا وہ بھی واجب القتل ہے تاکہ امت مسلمہ اس کے شر سے محفوظ رہے۔ اسی طرح جو شخص امت مسلمہ سے نکل کر کفار کے ساتھ مل جائے، وہ بھی باغی اور مرتد ہے اور اسے بھی قتل کیا جائے گا، خواہ وہ اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا رہے۔ (6) باغی کی سزا کے بارے میں تو تمام دنیا متفق ہے کہ اس کے فتنے سے بچنے کے لیے اسے سزائے موت دی جا سکتی ہے مگر مرتد کی سزائے موت پر بعض بزعم خویش ”روشن خیال“ حضرات کو اعتراض ہے کہ یہ تنگ نظری ہے اور آزادیٔ فکر پر قدغن ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ ایک ملک کے باغی کو سزائے موت دینا تو تنگ نظری نہیں اور نہ اس سے آزادیٔ فکر پر کوئی قدغن عائد ہوتی ہے مگر مذہب کے باغی کو سزائے موت دینا تنگ نظری اور تشدد ہے۔ کیا یہ روشن خیالی ہے؟ انصاف ہے؟ یا تو ہر کسی کو مادر پدر آزاد کر دیجیے کہ وہ مذہب اور ملک کے بارے میں جو مرضی کرے۔ چاہے وہ لوگوں کو قتل کرتا پھرے یا ڈاکے مارتا پھرے، اسے کچھ نہ کہیے کیونکہ یہ تنگ نظری اور آزادیٔ فکر پر پابندی ہے۔ ظاہر ہے یہ ممکن نہیں۔ تو پھر لازماً ہر شخص کو، جو کوئی دین اختیار کرتا ہے یا کسی ملک کی شہریت اختیار کرتا ہے، کسی نہ کسی ضابطۂ اخلاق کا پابند ہونا پڑے گا۔ اسی میں امن و سکون اور عزت و عافیت بلکہ انسانیت کی بقا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4025
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4026
´جماعت سے الگ ہونے والے شخص کو قتل کرنے کا بیان اور زیاد بن علاقہ کی عرفجہ سے روایت پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔` عرفجہ بن شریح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد فتنہ و فساد ہو گا، (آپ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کئے پھر فرمایا) تو تم جسے دیکھو کہ وہ امت محمدیہ میں اختلاف اور تفرقہ پیدا کر رہا ہے جب کہ وہ متفق و متحد ہیں تو اسے قتل کر دو خواہ وہ کوئی بھی ہو۔“[سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4026]
اردو حاشہ: (1) امت کا اتفاق و اتحاد ہر چیز سے زیادہ اہم ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر امت میں پھوٹ ڈالنا، ان میں تفریق پیدا کرنا اور انہیں حق و باطل کا معیار قرار دینا بہت بڑا جرم ہے۔ اگر امت کسی ایک امیر پر متفق ہو تو خواہ مخواہ امیر پر اعتراضات کر کے امت میں فساد پیدا کرنا بغاوت کی ذیل میں آتا ہے۔ امیر آخر انسان ہے فرشتہ نہیں، اس میں خامیاں ہو سکتی ہیں، وہ غلطی کر سکتا ہے مگر خامیاں اور غلطیاں بغاوت اور فساد کو جائز نہیں کر سکتیں۔ کیا کوئی امیر خامیوں اور غلطیوں سے پاک ممکن ہے؟ لہٰذا جب تک امیر واضح کفر کا ارتکاب نہ کر لے، اس کے خلاف بغاوت جائز نہیں۔ البتہ اس پر جائز تنقید ہو سکتی ہے مگر تخریب جائز نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4026
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4762
´خوارج سے قتال کا بیان۔` عرفجہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”میری امت میں کئی بار شر و فساد ہوں گے، تو متحد مسلمانوں کے شرازہ کو منتشر کرنے والے کی گردن تلوار سے اڑا دو خواہ وہ کوئی بھی ہو۔“[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4762]
فوائد ومسائل: یہ فتنہ سب سے پہلے انہی لوگوں نے ڈالا جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ کے خلاف بغاوت کی جو متفق علیہ خلیفہ راشد تھے۔ بعد میں انہی لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ کے خلاف خروج (بغاوت) کیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4762
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4798
حضرت عرفجہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا، ”جو انسان تمہارے پاس آئے، جبکہ تم ایک دوسرے آدمی (امیر) پر متفق ہو اور وہ تم میں اختلاف پیدا کرنا چاہے، تمہارے اتحاد کی لاٹھی (قوت) کو توڑنا چاہیے، یا تمہاری جمعیت میں تفریق پیدا کرے تو اسے قتل کر دو۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4798]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) أَمْرُكُمْ جَمِيعٌ: تم ایک امیر پر متفق اور متحد رہو۔ (2) يَشُقّ عَصَاكُمْ: تمہاری جمعیت جو لاٹھی کی طرح تمہاری قوت وطاقت کا نشان ہے، اس کو لاٹھی کی طرح توڑ کر، تمہاری قوت وحشمت کو ختم کرنا چاہے اس کو برداشت نہ کرو۔