ابن ادریس نے ہمیں شعبہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابو عمران سے، انہوں نے عبداللہ بن صامت سے اور انہوں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں (امیر کی بات) سنوں اور اطاعت کروں، چاہے وہ (امیر) کٹے ہوئے اعضاء والا غلام ہی کیوں نہ ہو
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تلقین فرمائی کہ میں سنوں اور اطاعت کروں خواہ امیر اعضاء کٹا غلام ہو۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4755
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: مُجَدَّعَ الأَطرَاف: جس کے اعضاء کاٹ دئیے گئے ہوں، مقصود ہے ایک حقیر اور بدصورت غلام بھی اگر حاکم ہو اور صحیح کام کا حکم دے تو اس کی اطاعت بھی واجب ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4755
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2862
´امام کی اطاعت و فرماں برداری کا بیان۔` ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ مقام ربذہ میں پہنچے تو نماز کے لیے تکبیر کہی جا چکی تھی، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک غلام لوگوں کی امامت کر رہا ہے، اس سے کہا گیا: یہ ابوذر رضی اللہ عنہ ہیں، یہ سن کر وہ پیچھے ہٹنے لگا تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے خلیل (جگری دوست) محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ وصیت کی کہ امام گرچہ اعضاء کٹا حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو میں اس کی بات سنوں اور مانوں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2862]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) مسلمان حاکم کی اطاعت ضروری ہے۔
(2) اسلامی حکومت میں عہدہ اہلیت وقابلیت کی بنیاد پر دیا جاتا ہے رنگ ونسل یا ظاہری حسن جمال کی بنیاد پر نہیں۔
(3) حکمرانوں کا فرض ہے کہ اسلامی سلطنت کا نظم ونسق احکام شریعت کے مطابق چلائیں ورنہ خلاف شریعت حکم تسلیم کرنے سے انکار کیا جاسکتا ہے۔ اور اسے بغاوت قرار نہیں دیا جائے گا۔
(4) عالم کا احترام کرنا چاہیے۔
(5) عالم کے احترام میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس کی موجودگی میں کم درجے کا عالم نماز نہ پڑھائے۔
(6) عالم کی اجازت سے کم درجے کا شخص بھی نماز پڑھا سکتا ہے۔
(7) حاکم اپنے عہدے کی بناء پر نماز کا امام بننے کا حق رکھتا ہے۔
(8) مسلمانوں میں اجتماعی ڈسپلن قائم رکھنا بہت ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2862