4678. ہاشم بن قاسم، ابو عامر عقدی اور ابو علی عبید اللہ بن عبدالمجید حنفی نے عکرمہ بن عمار سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ایاس بن سلمہ (بن اکوع) نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے میرے والد (سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ جن کا اصل نام سنان بن عمرو ہے) نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ آئے، ہم تعداد میں چودہ سو تھے اور اس (حدیبیہ کے کنویں) پر پچاس بکریاں (پانی پیتیں) تھیں وہ ان کی پیاس نہیں بجھا رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں کے مینڈھ پر بیٹھ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی یا اس میں لعاب ڈالا تو پانی جوش مارنے (زیادہ ہو کر اوپر اٹھنے) لگا، ہم نے (خود اور ہمارے جانوروں) پیا اور (برتنوں میں) پانی بھرا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیعت کے لیے درخت کی جڑوں (کے قریب والی جگہ) میں بلایا تو میں نے سب لوگوں سے پہلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی، پھر لوگ ایک دوسرے کے بعد بیعت کرنے لگے حتی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی نصف تعدا تک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلمہ بیعت کرو۔“۔ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں تو لوگوں کے شروع ہی میں آپ سے بہعت کر چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دوبارہ بیعت کرو“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہتا دیکھا۔۔۔ یعنی ان کے ساتھ کوئی اسلحہ نہیں تھا۔۔۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دہرے) چمڑے کی ایک چھوٹی سے ڈھال یا اسی قسم کی ایک ڈھال دی (اور) آپ پھر سے بیعت لینے لگے حتی کہ جب آپ لوگوں کے آخر (کے حصے) میں تھے تو آپ نے فرمایا: ”سلمہ! کیا تم بیعت نہیں کرو گے؟“ کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں لوگوں کے شروع میں اور درمیان کیں آپ کی بیعت کر چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر کرو“ کہا: میں نے تیسری بار آپ کی بیعت کی، پھر آپ نے مجھ سے پوچھا: ”سلمہ! تمھاری وہ چمڑے کی ڈھال کہاں ہے جو میں نے تمہیں دی تھی؟“ میں عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میرے چچا عامر (بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ) نہتے ملے تو میں نے وہ انھیں دے دی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا: ”تیری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے (پہلے زمانےمیں) کہا تھا: اے اللہ! مجھے ایسا دوست عطا کردے جو مجھے میری جان سے زیادہ محبوب ہو“ پھر مشرکین نے ہمارے ساتھ صلح کے پیغاموں کا تبادلہ کیا حتی کہ ہم چل کر ایک دوسرے کا پاس گئے اور ہم نے صلح کر لی۔ کہا: میں طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کے تابع (ان کا خادم) تھا، میں ان کے گھورے کو پانی پلاتا، اس پر کھریرا پھیرتا تھا، ان کی خدمت کرتا تھا کھانا بھی ان کے ہاں کھاتا تھا۔ میں نے اپنا گھر بار اور مال و دولت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کرتے ہوئے چھوڑ دیا تھا۔ کہا: جب ہم نے اور اہل مکہ نے باہم صلح کر لی اور ہم ایک دوسرے سے ملنے جلنے لگے تو میں ایک درخت کے پاس گیا، اس کے (زمین پر گرے ہوئے) کانٹے صاف کیے اور اس کے تنے (کے ساتھ والی جگہ) میں لیٹ گیا۔ تو میرے پاس اہل مکہ کے چار مشرک آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف باتیں کرنے لگے، مجھے ان سے شدید نفرت ہوئی اور میں ایک اور درخت کی طرف چلا گیا، انھوں نے اپنا اسلحہ لٹکایا اور لیٹ گئے، وہ اسی حالت میں تھے کہ کسی آواز دینے والے نے وادی کے نشیب سے آواز دی: اے مہاجرین! خبردار! ابن زنیم کو قتل کر دیا گیا ہے۔ (یہ سن کر) میں نے اپنی تلوار میان سے نکال لی، پھر ان چاروں پر نیند کی حالت میں دھاوا بول دیا میں نے ان کا اسلحہ چھین لیا اور اس کا گٹھا بنا کر ہاتھ میں لے لیا، پھر میں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو عزت بخشی ہے! تم میں جو بھی اپنا سر اٹھائے گا میں اس کا وہ حصہ تلوار سے اڑا دوں گا جس میں اس کی دونوں آنکھیں ہیں۔ (اس کی کھوپڑی اڑا دوں گا) پھر میں انھیں ہانکتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ کہا: میرے چچا عامر بھی عبلات (کے گھرانے میں) سے ایک آدمی کو، جسے مکرز کہا جاتا تھا، کھینچتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرف لے آئے، جو ستر مشرکوں کے درمیان ایسے گھوڑے پر سوار تھا جس پر زرہ جیسا نمدہ ڈالا ہوا تھا (سوار کے علاوہ گھوڑا بھی جنگ کے لیے مسلح تھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انھیں چھوڑ دو تاکہ بد عہدی کی ابتداء بھی انھیں کی طرف سے اور دوسری بار بھی انھی کر طرف سے ہو“ تو رسول اللہ نے انھیں معاف فرما دیا۔ (اس موقع پر) اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں تمھیں ان پر غالب کر دینے کے بعد، ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے“ پوری آیت نازل فرمائی۔پھر ہم لوٹے مدینہ کو، راہ میں ایک منزل پر اترے، جہاں ہمارے اور بنی لحیان کے مشرکوں کے بیچ میں ایک پہاڑ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اس شخص کے لیے جو اس پہاڑ پر چڑھ جائے رات کو اور پہرہ دے آپ کا اور آپ کے اصحاب کا۔ سلمہ نے کہا: میں رات کو اس پہاڑ پر دو یا تین بار چڑھا (اور پہرہ دیتا رہا)، پھر ہم مدینہ میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنیاں اپنے رباح غلام کو دیں اور میں بھی اس کے ساتھ تھا، طلحہ کا گھوڑا لیے ہوئے چراگاہ میں پہنچانے کے لیے ان اونٹنیوں کے ساتھ، جب صبح ہوئی تو عبدالرحمٰن فزاری (مشرک) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں کو لوٹ لیا اور سب کو ہانک لے گیا اور چرواہے کو مار ڈالا۔ میں نے کہا: اے رباح! تو یہ گھوڑا لے اور طلحہ کے پاس پہنچا دے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کر کہ کافروں نے آپ کی اونٹنیاں لوٹ لیں، پھر میں ایک ٹیلہ پر کھڑا ہوا اور مدینہ کی طرف منہ کر کے میں تین بار آوز دی ”يا صباحاه“ بعد اس کے میں ان لٹیروں کے پیچھے روانہ ہوا تیر مارتا ہوا اور رجز پڑھتا ہوا ”میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔“ پھر میں کسی کے قریب ہوتا اور ایک تیر اس کی کاٹھی میں مارتا جو اس کے کاندھے تک پہنچ جاتا (کاٹھی کو چیر کر) اور کہتا یہ لے اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے، پھر قسم اللہ کی میں برابر تیر مارتا رہا اور زخمی کرتا رہا جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف لوٹتا تو میں درخت کے تلے آ کر اس کی جڑ میں بیٹھ جاتا اور ایک تیر مارتا وہ سوار زخمی ہو جاتا یہاں تک کہ وہ پہاڑ کے تنگ راستے میں گھسے اور میں پہاڑ پر چڑھ گیا۔ اور وہاں سے پتھر مارنا شروع کیے اور برابر ان کا پیچھا کرتا رہا یہاں تک کہ کوئی اونٹ جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کا تھا نہ بچا جو میرے پیچھے نہ رہ گیا اور لٹیروں نے اس کو نہ چھوڑ دیا ہو (تو سب اونٹ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے چھین لیے) سلمہ نے کہا: پھر میں ان کے پیچھے چلا، تیر مارتا ہوا یہاں تک کہ تیس چادروں میں سے زیادہ اور تیس بھالوں سے زیادہ ان سے چھینیں وہ اپنے تئیں ہلکا کرتے تھے (بھاگنے کے لئے) اور جو چیز وہ پھینکتے میں اس پر ایک نشان رکھ دیتا پتھر کا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو اس کو پہچان لیں (کہ یہ غنیمت کا مال ہے اور اس کو لے لیں) یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی میں آئے اور وہاں ان کو بدر فزاری کا بیٹا ملا، وہ سب بیٹھے صبح کا ناشتہ کرنے لگے اور میں ایک چھوٹی ٹیکری کی چوٹی پر بیٹھا۔ فزاری نے کہا: یہ کون شخص ہے۔ وہ بولے اس شخص نے ہم کو تنگ کر دیا۔ قسم اللہ کی اندھیری رات سے ہمارے ساتھ ہے برابر تیر مارے جاتا ہے یہاں تک کہ جو کچھ ہمارے پاس تھا سب چھین لیا۔ فزاری نے کہا: تم میں سے چار آدمی اس کو جا کر مار لیں۔ یہ سن کر چار آدمی میری طرف چڑھے پہاڑ پر جب وہ اتنے دور آ گئے کہ میری بات سن سکیں تو میں نے کہا: تم مجھے جانتے ہو۔ انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: میں سلمہ ہوں، اکوع کا بیٹا (اکوع ان کے دادا تھے لیکن دادا کی طرف اپنے کو منسوب کیا بوجہ شہرت کے اور سلمہ کے باپ کا نام عمرو تھا اور عامر ان کے چچا تھے کیوں کہ وہ اکوع کے بیٹے تھے) قسم اس ذات کی جس نے بزرگی دی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک کو میں تم میں سے جس کو چاہوں گا مارڈالوں گا (تیر سے) اور تم میں سے کوئی مجھے نہیں مار سکتا، ان میں ایک شخص بولا۔ یہ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے پھر وہ سب لوٹے۔ میں وہاں سے نہیں چلا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار نظر آئے جو درختوں میں گھس رہے تھے۔ سب سے آگے اخرم اسدی تھے، ان کے پیچھے ابوقتادہ اان کے پیچھے مقداد بن اسود کندی۔ میں نے اخرم کے گھوڑے کی باگ تھام لی، یہ دیکھ کر وہ لٹیرے بھاگے۔ میں کہا: اے اخرم تم ان سے بچے رہنا ایسا نہ ہو یہ تم کو مار ڈالیں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نہ آ لیں۔ انہوں نے کہا: اے سلمہ! اگر تجھ کو یقین ہے اللہ کا اور آخرت کے دن کا اور تو جانتا ہے کہ جنت سچ ہے اور جہنم سچ ہے تو مت روک مجھ کو شہادت سے۔ (یعنی بہت ہو گا تو یہی کہ میں ان لوگوں کے ہاتھ شہید ہوں گا اس سے کیا بہتر ہے) میں نے ان کو چھوڑ دیا، ان کا مقابلہ ہوا عبدالرحمٰن فزاری، سے اخرم نے اس کے گھوڑے کو زخمی کیا اور عبدالرحمٰن نے برچھی سے اخرم کو شہید کیا اور اخرم کے گھوڑے پر چڑھ بیٹھا، اتنے میں سیدنا ابوقتادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہسوار آن پہنچے اور انہوں نے عبدالرحمٰن کو برچھی مار کر قتل کیا تو قسم اس کی جس نے بزرگی دی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک کو میں ان کا پیچھا کئے گیا، میں اپنے پاؤں سے ایسا دوڑ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے آپ کا کوئی صحابی نہ دکھلائی دیا نہ ان کا غبار یہاں تک کہ وہ لٹیرے آفتاب ڈوبنے سے پہلے ایک گھاٹی میں پہنچے جہاں پانی تھا اور اس کا نام ذی قرد تھا، وہ اترے پانی پینے کو پیاسے تھے، پھر مجھے دیکھا، میں ان کے پیچھے دوڑتا چلا آتا تھا آخر میں نے ان کو پانی پر سے ہٹا دیا وہ ایک قطرہ بھی نہ پی سکے، اب وہ دوڑتے چلے کسی گھاٹی کی طرف۔ میں بھی دوڑا اور ان میں سے کسی کو پا کر ایک تیر لگا دیا اس کے شانے کی ہڈی میں۔ اور میں نے کہا: لے اس کو اور میں بیٹا ہوں اکوع کا اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا ہے۔ وہ بولا (اللہ کرے اکوع کا بیٹا مرے اور) اس کی ماں اس پر روئے۔ کیا وہی اکوع ہے جو صبح کو میرے ساتھ تھا۔ میں نے کہا: ہاں اے دشمن اپنی جان کے وہی اکوع ہے جو صبح کو تیرے ساتھ تھا۔ سلمہ بن اکوع نے کہا: ان لٹیروں کے دو گھوڑے سقط ہو گئے (دوڑتے دوڑتے) انہوں نے ان کو چھوڑ دیا ایک گھاٹی میں، میں ان گھوڑوں کو کھینچتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا۔ وہاں مجھ کو عامر ملے ایک چھاگل دودھ کی پانی ملا ہوا اور ایک چھاگل پانی کی لیے ہوئے، میں نے وضو کیا اور دودھ پیا (اللہ اکبر! سلمہ بن اکوع کی ہمت صبح سویرے سے دوڑتے دوڑتے رات ہو گئی گھوڑے تھک گئے، اونٹ تھک گئے، لوگ مر گئے، اسباب رہ گیا پر سلمہ نہ تھکے اور دن بھر میں کچھ کھایا نہ پیا اللہ جل جلالہ کی امداد تھی) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پانی پر تھے جہاں سے میں نے لٹیروں کو بھگایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب اونٹ لے لیے ہیں اور سب چیزیں جو میں نے مشرکوں سے چھینی تھیں سب برچھی اور چادریں اور سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے ان اونٹوں میں سے جو میں نے چھینی تھی ایک اونٹ نحر کیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کی کلیجی اور کوہان بھون رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! دیجیئے مجھ کو اجازت لشکر میں سے سو آدمی چن لینے کی پھر میں لٹیروں کا پیچھا کرتا ہوں اور ان میں سے کوئی شخص باقی نہیں رہے جو خبر دے اپنی قوم کو جا کر (یعنی سب کو مار ڈالتا ہوں) یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے، یہاں تک داڑھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھل گئیں انگار کی روشنی میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سلمہ! تو یہ کر سکتا ہے۔“ میں نے کہا: ہاں! قسم اس کی جس نے آپ کو بزرگی دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو اب غطفان کی سرحد میں پہنچ گئے وہاں ان کی مہمانی ہو رہی ہے۔“ اتنے میں ایک شخص آیا غطفان میں سے۔ وہ بولا: فلاں شخص نے ان کے لیے ایک اونٹ کاٹا تھا وہ اس کی کھال نکال رہے تھے۔ اتنے میں ان کو گرد معلوم ہوئی۔ وہ کہنے لگے لوگ آ گئے تو وہاں سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کے دن ہمارے سواروں میں بہتر سوار ابوقتادہ ہیں اور پیادوں میں سب سے بڑھ کر سلمہ بن اکوع ہیں۔“ سلمہ نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو دو حصہ دیئے۔ ایک حصہ سوار کا اور ایک حصہ پیادے کا اور دونوں مجھ ہی کو دے دیئے۔ بعد اس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے ساتھ بٹھایا عضباء پر مدینہ کو لوٹتے وقت۔ ہم چل رہے تھے کہ ایک انصاری جو دوڑنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتا تھا کہنے لگا کوئی ہے جو مدینہ کو مجھ سے آگے دوڑ جائے اور بار بار یہی کہتا تھا جب میں نے اس کا کہنا سنا تو اس سے کہا تو بزرگ کی بزرگی نہیں کرتا اور بزرگ سے نہیں ڈرتا۔ وہ بولا: نہیں، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی کرتا ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، مجھے چھوڑ دیجئے میں اس مرد سے آگے بڑھوں گا دوڑ میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا اگر تیرا جی چاہے۔“ تب میں نے کہا میں آتا ہوں تیری طرف اور میں نے اپنا پاؤں ٹیڑھا کیا اور کود پڑا پھر میں دوڑا اور جب ایک یا دو چڑھاؤ باقی رہے تو دم کو سنبھالا پھر جو دوڑا تو اس سے مل گیا۔ یہاں تک کہ ایک گھونسا دیا میں نے اس کے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں اور میں نے کہا: قسم اللہ کی اب میں آگے بڑھا پھر اس سے آگے پہنچا مدینہ کو (تو معلوم ہوا کہ مسابقت درست ہے بلاعوض اور بعوض میں خلاف ہے) پھر قسم اللہ کی ہم صرف تین رات ٹھہرے بعد اس کے خیبر کی طرف نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو میرے چچا عامر نے رجز پڑھنا شروع کیا۔ ”قسم اللہ کی اگر اللہ ہدایت نہ کرتا تو ہم راہ نہ پاتے اور نہ صدقہ دیتے، نہ نماز پڑھتے اور ہم تیرے فضل سے بے پروا نہیں ہوئے تو ج رکھ ہمارے پاؤں کو اگر کافروں سے ملیں اور اپنی رحمت اور تسلی اتار ہمارے اوپر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ لوگوں نے کہا: عامر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ بخشے تجھ کو۔“ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہنے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے لیے خاص طور پر استغفار کرتے تو وہ ضرور شہید ہوتا تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے پکارا اور وہ اپنے اونٹ پر تھے۔ یا نبی اللہ! آپ نے ہم کو فائدہ کیوں نہ اٹھانے دیا عامر سے، سیدنا سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: پھر جب ہم خیبر میں آئے تو اس کا بادشاہ مرحب تلوار ہلاتا ہوا نکلا اور یہ رجز پڑھتا تھا ”یعنی خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں پورا ہتھیار بند بہادر آزمودہ کار جب لڑائیاں آئیں شعلے اڑاتی ہوئی۔“ یہ سن کر میرے چچا عامر نکلے اس کے مقابلہ کے لیے اور انہوں نے یہ رجز پڑھا: ”خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں۔ پور ہتھیار بند لڑائی میں گھسنے والا۔“ پھر دونوں کا ایک ایک وار ہوا تو مرحب کی تلوار میرے چچا عامر کی ڈھال پر پڑی اور عامر نے نیچے سے وار کرنا چاہا تو ان کی تلوار انہی کو آ لگی اور شہ رگ کٹ گئی اسی سے مر گئے۔ سیدنا سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: پھر میں نکلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب کو دیکھا وہ کہہ رہے ہیں عامر کا عمل لغو ہو گیا اس نے اپنے تئیں آپ مار ڈالا۔ یہ سن کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا روتا ہوا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! عامر کا عمل لغو ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون کہتا ہے۔“ میں نے کہا: آپ کے اصحاب کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جھوٹ کہا جس نے کہا بلکہ اس کو دوہرا ثواب ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھیجا ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایسے شخص کو نشان دوں گا جو دوست رکھتا ہے اللہ اور اس کے رسول کو یا اللہ اور رسول اس کو دوست رکھتے ہیں۔“(ابن ہشام کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اللہ فتح دے گا اس کے ہاتھوں پر اور وہ بھاگنے والا نہیں) سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: پھر میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گیا اور ان کو لیا کھینچتا ہوا ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا وہ اسی وقت اچھے ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نشان دیا اور مرحب نکلا اور کہنے لگا: (قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّى مَرْحَبُ شَاكِى السِّلاَحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ)۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے جواب میں، یہ کہا (أَنَا الَّذِى سَمَّتْنِى أُمِّى حَيْدَرَهْ كَلَيْثِ غَابَاتٍ كَرِيهِ الْمَنْظَرَهْ أُوفِيهِمُ بِالصَّاعِ كَيْلَ السَّنْدَرَهْ)”یعنی میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا۔ مثل اس شیر کے جو جنگلوں میں ہوتا ہے (یعنی شیر ببر) نہایت ڈراؤنی صورت (کہ اس کے دیکھنے سے خوف پیدا ہو) میں لوگوں کو ایک صاع کے بدلے سندرہ دیتا ہوں۔ (سندرہ صاع سے بڑا پیمانہ ہے یعنی وہ تو میرے اوپر ایک خفیف حملہ کرتے ہیں اور میں ان کا کام ہی تمام کر دیتا ہوں) اس کے بعد انھوں نے مرحب کے سر پر تلوار مار کر اسے قتل کر دیا، پھر (خیبر کی) فتح انھی کے ہاتھوں پر ہوئی۔
امام صاحب اپنے تین اساتذہ کی سندوں سے حدیث بیان کرتے ہیں، یہ الفاظ عبداللہ دارمی کے ہیں کہ ایاس بن سلمہ، اپنے باپ حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں خیبر پہنچے اور ہماری تعداد چودہ سو (1400) تھی اور جب حدیبیہ کا چشمہ پچاس بکریوں کو بھی سیراب نہیں آ سکتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی، یا اس میں اپنا لب مبارک ڈالا، تو وہ جوش مار اٹھا، (پانی بلند ہو گیا) ہم نے خود بھی پانی پیا اور اپنے جانوروں کو بھی پلایا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کے دامن میں بیٹھ کر ہمیں بیعت کرنے کے لیے بلایا، تو میں نے آپ سے لوگوں کے آغاز میں بیعت کر لی، پھر لوگ مسلسل بیعت کرتے رہے، حتیٰ کہ جب آدھے لوگوں نے بیعت کر لی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سلمہ! بیعت کرو۔“ میں نے عرض کیا، میں تو آپ سے بیعت کر چکا ہوں، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں کے آغاز میں، آپ نے فرمایا، ”دوبارہ کرو۔“ آپ نے مجھے عَزِل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4678
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) عَلَيْهَا خَمْسُونَ شَاةً لَا تُرْوِيهَا: حدیبیہ کا پانی اتنا کم تھا، کہ اس سے پچاس بکریاں بھی سیراب نہیں ہوتی تھیں۔ (2) جَبَا الرَّكِيَّةِ: جبا اس مٹی کو کہتے ہیں، جو کنواں کھود کر باہر نکالتے ہیں اور کنویں کے اردگرد پھیلا دیتے ہیں، جاشت: کنویں کا پانی جوش مارنے لگا اور بلند ہو گیا، یہ حدیبیہ میں آپ کے پہلے معجزے کا اظہار تھا، کہ آپ نے اس کے کنویں میں اپنا لعاب دین ڈالا اور اس کا پانی چودہ سو (1400) افراد اور ان کے سواریوں کے لیے کافی ہو گیا، حالانکہ وہ پچاس بکریوں کو بھی سیراب نہیں کر سکتا تھا۔ (3) بَايَعْتُهُ الثَّالِثَةَ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی جراءت و شجاعت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے، ان سے تین دفعہ بیعت لی، جس کا ظہور تین قریبی غزوات، حدیبیہ، ذوقرد اور فتح خیبر میں ہوا۔ عزلا: غیر مسلح، بلا ہتھیار۔ حجفة اودرقة: دونوں کا معنی ڈھال ہے۔ (4) أَبْغِنِي: اگر یہ بغايه سے تو معنی ہو گا، میرے لیے تلاش کیجئے اور اگر ابغاء سے ہو تو معنی ہو گا، طلب و جستجو میں میری مدد کیجئے۔ (5) رَاسَلُونَا: ہمارے ساتھ مراسلت کی، پیغاموں کا تبادلہ کیا، كنت تبيعا: میں پیچھے پیچھے چلتا تھا، یعنی ان کا خدمت گزار تھا۔ أَحُسُّهُ میں گھوڑے کی پشت پر کھرکھرا کرتا تھا۔ (6) كَسَحْتُ شَوْكَهَا: (آرام کے لیے) درخت کے نیچے سے کانٹوں کو میں نے صاف کیا۔ (7) فَاخْتَرَطْتُ سَيْفِي: (جنگ کے خطرہ کے پیش نظر) میں نے اپنی تلوار نیام سے نکال لی۔ (8) جَعَلْتُهُ ضِغْثًا فِي يَدِي: میں نے (چاروں مشرکوں کے اسلحہ کو) تنکوں یا لکڑیوں کے گٹھا کی طرح ہاتھ میں لے لیا۔ (9) عَبَلَاتِ: یہ قریش کا ایک خاندان ہے، جو اپنی ماں عبله کی طرف منسوب ہے اور ان کو اميه صغري بھی کہا جاتا تھا، فرس مجفف: گھوڑا جس کو اسلحہ کی زد سے بچانے کے لیے اس پر جھل یا آتھر ڈالتے ہیں، لیکن لهم بدأالفجور ثناه: نقض عہد کا آغاز اور اعادہ انہیں کی طرف سے ہوں، کہ وہ ابن زنیم کو شہید کر کے، مسلمانوں پر پتھر اور تیر پھینک کر نقض عہد کا آغاز کر چکے ہیں۔ (10) فَأَصُكُّ صکا: کا اصل معنی تھپڑ مارنا ہوتا ہے، لیکن یہاں تیر پھینکنا مراد ہے۔ (11) آرَام: ارم کی جمع ہے، علامتی پتھر، جو نشانی اور علامت کے طور پر رکھا یا گاڑا جاتا ہے۔ (12) قرن: الگ تھلگ پہاڑی، كراس قرن پہاڑی کی چوٹی، مُتَضَايِق: تنگ جگہ، مَا هَذَا الَّذِي أَرَى؟ مراد ہے، من هذا، تحقیر کے لیے ما کہا، یہ کون ہے جسے میں دیکھ رہا ہوں۔ (13) الْبَرْحَ: مشقت و شدت، امكنوني من الكلام: میرے اس قدر قریب ہو گئے، کہ میرے لیے ان کو اپنی بات سنانا ممکن ہو گیا، لَا يَقْتَطِعُوكَ: تمہیں تیرے ساتھیوں سے الگ تھلگ نہ کر لیں، تم اکیلے ان کے قابو میں نہ آ جاؤ، (14) خَلَّيْتُهُمْ عَنْهُ: میں نے انہیں اس سے ہٹا دیا، دور کر دیا۔ (15) نُغْضِ: پٹھہ، اكوعه بكرة: کیا وہ اکوع ہی صبح سے ہمارے تعاقب میں ہے۔ (16) أَرْدَوْا فَرَسَيْنِ: خوف اور ڈر کے مارے دو گھوڑے چھوڑ گئے۔ (17) سَطِيحَةٍ: مشکیزہ۔ (18) مَذْقَةٌ: تھوڑا سا۔ (19) يُقْرَوْنَ: ان کی مہمان نوازی کا اہتمام ہو رہا ہے، یہ آپ کی پیشن گوئی تھی، کہ ان کی مہمان نوازی کا اہتمام غطفان کر رہے ہیں۔ (20) لَا يُسْبَقُ شَدًّا: دوڑ میں کوئی اس سے سبقت نہیں لے جا سکتا تھا۔ (21) رَبَطْتُ عَلَيْهِ: میں نے اپنے آپ کو روکے رکھا، آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کی، طَفَرْتُ: میں کود گیا۔ (22) أَسْتَبْقِي نَفَسِ: میں شروع میں بھاگ کر اپنا سانس اکھیڑنا نہیں چاہتا، آہستہ آہستہ رفتار تیز کرنا چاہتا تھا، تاکہ سانس نہ پھولے۔ (23) شَاكِي السِّلَاحِ: مسلح، ہتھیار بند۔ (24) تَلَهَّبُ: شعلہ بھڑکنا۔ (25) بطل: بہادر، دلیر۔ (26) مُجَرَّبُ: تجربہ کار۔ (27) مُغَامِرُ: شدائد میں کود جانے والا۔ (28) يَسْفُلُ لَهُ: نیچے سے نشانہ لینے لگا۔ (29) أَكْحَلَ: رگ حیات، بازو کی رگ۔ (30) حَيْدَرَ: شیر، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد نے بیٹے کا نام حیدر رکھا تھا، کیونکہ ان کے نانا کا نام اسد تھا، ابو طالب نے نام علی رکھا اور مرحب نے خواب دیکھا تھا، کہ مجھے ایک شیر قتل کر رہا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے یاد دلایا، وہ شیر میں ہی ہوں۔ اس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجزہ کا ظہور ہوا کہ آپ کے لعاب دہن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دکھتی آنکھیں فوراً ٹھیک ہو گئیں اور آپ کی یہ پیشن گوئی بھی پوری ہوئی کہ میں جھنڈا اس کو دوں گا جس کے ہاتھوں، اللہ تعالیٰ خیبر فتح کروائے گا اور صحیح حدیث کی رو سے مرحب کو حضرت علی نے قتل کیا ہے، حضرت محمد بن مسلمہ نے قتل نہیں کیا، جیسا کہ ابن اسحاق کا دعویٰ ہے، محدثین اور سیرت نگاروں کی اکثریت کے بقول، مرحب کو حضرت علی ہی نے جہنم رسید کیا، اس لیے واقدی کا یہ قول درست نہیں ہے کہ آپ نے مرحب کی سلب حضرت محمد بن مسلمہ کو دی۔ (31) السَّنْدَرَهْ: کھلا پیمانہ، کہ میں ان کو خوب موت کے گھاٹ اتاروں گا، یا سندر کا معنی عجلت ہے، کہ میں فوراً دشمن کو قتل کر دیتا ہوں۔ فوائد ومسائل: ذوقرد، مدینہ سے بارہ (12) میل یا ایک دن کی مسافت پر، ایک چشمہ ہے، جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھیاری اونٹنیاں چرتی تھیں، صلح حدیبیہ سے واپسی پر آپ نے اپنے غلام رباح کی نگرانی میں اور سواریاں وہاں بھیجیں، وہاں حضرت ابو ذر کے بیٹے اور ان کی بیوی موجود تھے، اور حضرت رباح رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بھی حضرت طلحہ بن عبید اللہ کے گھوڑے پر تھے، ابھی وہ راستہ میں ہی تھے، کہ انہیں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے غلام نے یہ اطلاع دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھیاری اونٹنیوں پر حملہ ہو گیا ہے، تو حضرت سلمہ بن اکوع نے گھوڑا حضرت رباح کے حوالہ کیا اور خود، ان حملہ آوروں کے تعاقب میں دوڑ پڑے، واقعہ کی تفصیل حدیث میں موجود ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4678
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4164
´موت پر بیعت کا بیان۔` یزید بن ابی عبید کہتے ہیں کہ میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے کہا: حدیبیہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ لوگوں نے کس چیز پر بیعت کی؟ انہوں نے کہا: موت پر ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4164]
اردو حاشہ: موت پر بیعت کا مفہوم سابقہ رویت میں بیان ہوچکا ہے اور دونوں روایات میں تطبیق بھی کہ بعض صحابہ نے بیعت کے موقع پر موت کے لفظ بولے تھے اور بعض نے نہیں۔ یہ واقعہ بیعت رضوان کا ہے جو صلح حدیبیہ کے موقع پر لی گئی۔ حدیبیہ مکہ مکرمہ سے کچھ فاصلے پر ایک جگہ کا نام ہے جسے آج کل شمسیہ کہا جاتا ہے۔ آپ نے صلح کی بات چیت کے لیے حضرت عثمانؓ کو مکہ مکرمہ بھیجا تھا مگر مشہور ہو گیا کہ انھیں شہید کردیا گیا ہے۔ اس وقت یہ بیعت لی گئی تھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4164
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1592
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بیعت کا بیان۔` یزید بن ابی عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں نے سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ سے پوچھا: حدیبیہ کے دن آپ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس بات پر بیعت کی تھی؟ انہوں نے کہا: موت پر ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1592]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس میں اور اس سے پہلے والی حدیث میں کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ اس حدیث کا بھی مفہوم یہ ہے کہ ہم نے میدان سے نہ بھاگنے کی بیعت کی تھی، بھلے ہم اپنی جان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھو بیٹھیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1592
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7208
7208. سیدنا سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا، ہم نے درخت کے نیچے نبی ﷺ کی بیعت کی۔ آپ نے مجھے فرمایا: اے سلمہ! کیا تم بیعت نہیں کرو گے؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے پہلے بیعت کرلی ہے۔ آپ نےفرمایا: ”دوسری مرتبہ بھی کرلو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7208]
حدیث حاشیہ: دوبارہ بیعت کا مطلب تجدید عہد ہے جو جس قدر مظبوط کیا جاسکے بہتر ہے۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ سے بار بار بیعت لی ہے۔ سلمہ بن اکواع بڑے بہادر اور لڑنے والے مرد تھے تیر اندازی اور دوڑ میں بے نظیر تھے۔ ان کی فضیلت ظاہر کرنے کے لیے ان سے دو مرتبہ بیعت لی گئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7208
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2960
2960. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے بیعت کی اور اس کے بعد میں ایک درخت کے سائے کے نیچے چلا گیا: پھر جب ہجوم ہوا تو آپ نے فرمایا: ”اے ابن اکوع ؓ! کیا تم بیعت نہیں کرو گے؟“ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں تو بیعت کر چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تو پھر سہی۔“ لہٰذا میں نے آپ سے دوبارہ بیعت کی۔ (راوی حدیث کہتا ہے)میں نے ان سے کہا: ابو مسلم! تم نے اس دن کس بات پر بیعت کی تھی؟ انھوں نے فرمایا موت پر۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2960]
حدیث حاشیہ: یہاں بھی حدیبیہ میں بیعت الرضوان مراد ہے۔ جو ایک درخت کے نیچے لی گئی تھی۔ سورہ فتح میں اللہ تعالیٰ نے ان جملہ مجاہدین کے لئے اپنی رضا کا اعلان فرمایا ہے۔ رضي اللہ عنهم و رضوا عنه۔ آیت شریفہ ﴿لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ﴾(الفتح: 18) میں اسی کا بیان ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2960
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2960
2960. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے بیعت کی اور اس کے بعد میں ایک درخت کے سائے کے نیچے چلا گیا: پھر جب ہجوم ہوا تو آپ نے فرمایا: ”اے ابن اکوع ؓ! کیا تم بیعت نہیں کرو گے؟“ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں تو بیعت کر چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تو پھر سہی۔“ لہٰذا میں نے آپ سے دوبارہ بیعت کی۔ (راوی حدیث کہتا ہے)میں نے ان سے کہا: ابو مسلم! تم نے اس دن کس بات پر بیعت کی تھی؟ انھوں نے فرمایا موت پر۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2960]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ بڑے جری،بہادر اور جفاکش تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے دوسری مرتبہ بیعت لی تاکہ اللہ کی راہ میں خوشی خوشی اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں: حضرت سلمہ بن اکوع ؓ شہسوار اور پیادہ دونوں طرح کہ لڑائی میں ماہر تھے تو دونوں صفات کے اعتبار سے دو دفعہ بیعت لی گئی۔ گویا تعددصفت،تعدد بیعت کا سبب بنا۔ (فتح الباري: 246/13) 2۔ موت پربیعت کرنے کامقصد یہ ہے کہ کفار کے ساتھ جنگ میں ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں اگرچہ لڑتے لڑتے موت آجائے۔ محض مرنا مقصود نہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2960
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4169
4169. حضرت یزید بن ابو عبید سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے سلمہ بن اکوع ؓ سے پوچھا کہ تم نے حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کی کس شرط پر بیعت کی تھی؟ انہوں نے فرمایا: موت پر۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4169]
حدیث حاشیہ: 1۔ پہلی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ زوالِ آفتاب سے پہلے نماز جمعہ جائز ہے کیونکہ اس حدیث میں اس سائے کی نفی ہے جس کے نیچے بیٹھا جائے اور آرام کیا جائے، مطلق سائے کی نفی نہیں۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ بھی اصحاب شجرہ سے ہیں۔ حضرت سلمہ ؓ خود فرماتے ہیں کہ میں نے حدیبیہ کے موقع پررسول اللہ ﷺ کی بیعت کی، پھرمیں درخت کے سائے میں بیٹھ گیا، جب بھیڑ ختم ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابن اکوع!کیا تم بیعت نہیں کروگے؟“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! میں نےآپ کی بیعت کرلی ہے توآپ نے فرمایا: ”دوبارہ کرو۔ ،، چنانچہ میں نے دوسری مرتبہ آپ سے بیعت کی۔ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث 2960) 3۔ آپ نے دو مرتبہ بیعت کیوں کی؟ اس کی تفصیل کتاب الجہاد میں مذکورہ حدیث کے تحت دیکھی جاسکتی ہے۔ 4۔ موت پر بیعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ میدان جنگ سے نہیں بھاگیں گے اگرچہ وہاں شہید ہوجائیں، یعنی موت کو عدم فرار لازم ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4169
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7206
7206. سیدنا یزید بن ابو عبیدہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے سیدنا سلمہ بن اکوع ؓ سے پوچھا: تم نے حدیبیہ کے دن نبی ﷺ سے کس بات پر بیعت کی تھی؟ انہوں نے فرمایا: موت پر بیعت کی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7206]
حدیث حاشیہ: یزید بن ابو عبیدہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ انھوں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کس بات پر کی تھی؟ اس سوال کا پس منظر یہ تھا کہ انھوں نے حدیبیہ کے دن دو دفعہ بیعت کی تھی جس کی وجہ سے یزید بن ابو عبیدہ کو تجسس پیدا ہوا تو انھوں نے یہ سوال کیا۔ انھوں نے فرمایا: ہماری بیعت یہ تھی کہ ہم جنگ سے نہیں بھاگیں گے۔ اگرچہ میدان میں موت آجائے۔ (صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: 2960)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7206
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7208
7208. سیدنا سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا، ہم نے درخت کے نیچے نبی ﷺ کی بیعت کی۔ آپ نے مجھے فرمایا: اے سلمہ! کیا تم بیعت نہیں کرو گے؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے پہلے بیعت کرلی ہے۔ آپ نےفرمایا: ”دوسری مرتبہ بھی کرلو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7208]
حدیث حاشیہ: دوبارہ بیعت کرنے کا مطلب تجدید عہد ہے جسے جس قدر مضبوط کیا جائے بہتر ہے۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے بہادر تیرانداز اور دوڑ میں بے نظیر تھے ان کے مرتبے اور فضیلت کو ظاہر کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دو مرتبہ بیعت لی اور اس میں اشارہ تھا کہ وہ آئندہ جنگوں میں دو آدمیوں کے قائم مقام ہوں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک مرتبہ پیدل اور سوار کا حصہ دیا تھا۔ (فتح الباري: 26/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7208