عقیل نے ابن شہاب (زہری) سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی اور یہ اضافہ کیا: یہ عبداللہ (بن ابی) کے (ظاہری طور پر) اسلام (کا اعلان کرنے) سے پہلے کا واقعہ ہے
امام صاحب ایک اور استاد سے زہری کی مذکورہ سند سے یہ روایت بیان کرتے ہیں، اس میں یہ اضافہ ہے، یہ اس وقت کی بات ہے، جب اس نے مسلمان ہونے کا اظہار نہیں کیا تھا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4660
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) إِكاف: گدھے کی کاٹھی، عَجَاجة الدَابَّة: جانور کے پاؤں کے سبب اٹھنے والا گردوغبار۔ (2) سَلَّمَ عَلَيْهِم: اس مشترکہ مجلس کو سلام کیا، جس سے معلوم ہوا، مسلمانوں اور کافروں کی مشترکہ مجلس کے حاضرین کو مسلمانوں کی نیت کرتے ہوئے سلام کہنا درست ہے۔ (3) لاَاَحْسَن مِنْ هَذَا الخ: آپ جو کچھ کہتے ہیں، اگر حق ہے تو پھر اس سے بہتر کوئی بات نہیں، گویا دبے الفاظ میں اس کے حق ہونے کا انکار کیا۔ (4) أَن يَّتَوَاثَبُوا: ایک دوسرے پر پل پڑیں، ایک دوسرے پر حملہ کر دیں۔ (5) ابو حباب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تحقیر آمیز لب و لہجہ کے باوجود اس کو قابل احترام انداز میں یاد کیا۔ (6) يُعَصِّبُوه بِالعِصَابة: اسے سرداری کی پگڑی باندھ دیں، شہر والوں کا رئیس تسلیم کر لیں۔ (7) شَرِقَ بذِاَلك: غصہ حلق میں پھنس گیا ہے، حسد سے جل بھن گیا ہے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، داعی حق کو مخالفوں کے تحقیر آمیز اور شرمناک سلوک پر بھی صبرو تحمل اور برداشت سے کام لیتے ہوئے ان سے درگذر کرنا چاہیے اور جواباً انہیں جیسا اسلوب ولب ولہجہ نہیں اپنانا چاہیے، اینٹ کا جواب پتھر سے دینا تو بہت دور کی بات ہے، اینٹ کا جواب اینٹ سے بھی نہیں دینا چاہیے، نیز مخالفت کے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے، ان کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔