ابن عیینہ نے اسود بن قیس سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک لشکر میں تھے اور (وہاں) آپ کی انگلی زخمی ہو گئی
یہی روایت امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے، اسود بن قیس ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں، اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غار میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی پتھر سے زخمی ہو گئی۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4655
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: غار: سے مراد بعض کے نزدیک لشکر اور جماعت ہے اور بعض کے نزدیک پہاڑ کی غار، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ایک جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ کی غار میں تھے، نماز کے لیے نکلے تو پتھر لگنے سے انگلی زخمی ہو گئی، اس لیے روایات میں کوئی تضاد نہیں ہے اور غار کا معنی لشکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، رہا یہ مسئلہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شعر کہا ہے تو اس کا بعض نے یہ جواب دیا ہے کہ یہ رجز ہے، شعر نہیں ہے اور بعض نے کہا ہے، جس کلام کو قصد اور ارادہ سے موزوں اور مقفی کیا جائے، وہ شعر ہوتا ہے اور جو کلام غیر ارادی طور پر موزوں ہو جائے، اس کو شعر نہیں کہا جاتا اور بقول بعض یہ شعر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ہے، بلکہ عبداللہ بن رواحہ کا شعر ہے، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمثیل کیا ہے اور آپﷺ دوسروں کے اشعار پڑھ دیتے تھے۔