علی بن مسہر نے ہمیں ہشام بن عروہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت ابوسفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (بیعت کے لیے) حاضر ہوئیں تو عرض کی: اللہ کے رسول! ابوسفیان بخیل آدمی ہے، وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتا جو مجھے اور میرے بچوں کو کافی ہو جائے، سوائے اس کے جو میں اس کے مال میں سے اس کی لاعلمی میں لے لوں، تو کیا اس میں مجھ پر کوئی گناہ ہو گا؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "معروف طریقے سے ان کے مال میں سے (بس) اتنا لے لیا کرو جو تمہیں اور تمہارے بچوں کو کافی ہو
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہا کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ابوسفیان لالچی اور حریص آدمی ہے،مجھے اتنا خرچہ نہیں دیتا جو مجھے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو، الا یہ کہ میں اسے بتائے یا اس کے علم میں لائے بغیر اس کے مال سے کچھ لے لوں، کیا اس صورت میں مجھ پر گناہ ہو گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اس کے مال سے عرف و دستور کے مطابق اتنا لے سکتی ہے جو تجھے اور تیرے بچوں کے لیے کافی ہو۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4477
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مفتی فریق مخالف کی بات سننے کا پابند نہیں ہے، وہ مسئلہ کا جواب بتا دے گا، جب حضرت ہند رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میں اپنے خاوند کے مال سے جو پورا خرچہ نہیں دیتا ہے، اس قدر لے سکتی ہوں، جو میرے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو تو آپﷺ نے حضرت سفیان کو بلائے بغیر، یہ جواب دیا کہ اس وقت کے عرف اور رواج کے مطابق تمہیں جس قدر خرچہ کی ضرورت ہو، تم لے سکتی ہو اور اس مسئلہ کی روشنی میں علماء نے یہ بحث کی ہے کہ قرض خواہ نے مقروض سے اپنا قرضہ لینا ہے لیکن وہ دیتا نہیں ہے اور اس کے ہاتھ میں مقروض کا کچھ مال آ جاتا ہے تو کیا وہ اس سے اپنا حق کاٹ سکتا ہے؟ امام ابن قدامہ نے اس کی مندرجہ ذیل تفصیل بیان کی۔ (1) اگر مقروض، قرض کا اقرار کرتا ہے اور دینے کے لیے تیار بھی ہے تو ایسی صورت میں قرض خواہ کو بالاتفاق قبضہ میں آنے والے مال سے اپنا حق، اس کی اجازت کے بغیر وصول کرنا جائز نہیں ہے، اگر اپنا حق کاٹ لیا ہے تو اس کو واپس کرنا ہو گا، اگرچہ قبضہ میں آنے والا مال اس کے قرضہ کی جنس سے ہو۔ (2) اگر مقروض کو قرضہ کی ادائیگی کے سلسلہ میں کوئی رکاوٹ ہو، مثلا وہ تنگدست اور محتاج ہے یا مہلت چاہتا ہو تو پھر بھی بالاتفاق اس کی اجازت کے بغیر، مقبوضہ مال سے اپنا حق وصول کرنا جائز نہیں ہے۔ (3) اگر مقروض بلاوجہ یا بلا ضرورت قرضہ ادا نہیں کرتا اور قرض خواہ عدالت کے ذریعہ اپنا حق وصول کر سکتا ہے تو پھر بھی اپنے عہد پر، اپنا حق وصول کرنا جائز نہیں ہے۔ (4) اگر مقروض، قرضہ سے انکار کرتا ہے اور قرض خواہ کے پاس بینہ نہیں ہے اور عدالت کے ذریعہ اپنا حق وصول نہیں کر سکتا تو اس میں ائمہ کا اختلاف ہے، امام شافعی کا نظریہ ہے قبضہ میں آنے والے مال سے، وہ قرضہ کی جنس سے ہو یا نہ ہو، اپنا حق وصول کر سکتا ہے، امام مالک کا ایک قول یہی ہے، امام احمد کا مشہور قول یہ ہے، وہ مقبوضہ مال سے اپنا حق وصول نہیں کر سکتا، اس کو وہ مال دینا ہو گا اور اپنے قرضہ کا مطالبہ کرنا ہو گا، امام مالک کا دوسرا قول یہی ہے، امام ابو حنیفہ کا قول یہ ہے کہ اگر مقبوضہ مال، قرضہ کی جنس سے ہے تو پھر جائز ہے، وگرنہ جائز نہیں ہے، امام مالک کا تیسرا قول یہی ہے۔ (المغني کتاب الدعاوي والبینات، ج 14، ص 339، 340) احناف متاخرین کا فتویٰ امام شافعی کے موقف کے مطابق ہے۔ (تکملہ ج 2 ص 580)