10. باب: کتوں کے قتل کا حکم پھر اس حکم کا منسوخ ہونا اور اس امر کا بیان کہ کتے کا پالنا حرام ہے مگر شکار یا کھیتی یا جانوروں کی حفاظت کے لیے یا ایسے ہی اور کسی کام کے واسطے۔
ابوحکم سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کر رہے تھے، آپ نے فرمایا: "جس نے کھیتی یا بکریوں (کی حفاظت) یا شکار کے کتے کے سوا کتا رکھا اس کے اجر میں سے ہر روز ایک قیراط کم ہو گا۔"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کتا رکھا، مگر کھیتی، بکریوں یا شکار کا کتا، اس کے اجر سے ہر روز دو قیراط کم ہوں گے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4029
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کھیتی کے کتے کا استثناء بیان کرتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں جب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سنائی گئی، تو انہیں بھی یاد آ گیا، اس لیے بعد میں انہوں نے اس کو بیان کرنا شروع کر دیا، یا انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر اعتماد کرتے ہوئے، اس کو بیان کرنا شروع کر دیا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے جو یہ کہا تھا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کھیتی کا مالک ہے، تو اس کا مقصد نہ تھا کہ اس نے اپنے مفاد میں یہ بات گھڑ لی ہے، بلکہ توثیق و تائید مقصود تھی، چونکہ وہ کھیتی کے مالک ہیں، اس لیے وہ اس کو بہتر طور پر جانتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4029
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 581
´شکار، جانوروں اور کھیتی باڑی کی حفاظت کے لئے کتا رکھنا جائز ہے` «. . . 256- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من اقتنى كلبا ليس بكلب صيد ولا كلب ماشية نقص من أجره كل يوم قيراطان.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی شکاری اور جانوروں کی حفاظت والے کتے کے علاوہ کوئی کتا پالے تو اس کے اجر و ثواب (نیکیوں) میں سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہوتی ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 581]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5482، ومسلم 50/1574، من حديث مالك به] تفقه: ➊ احادیث ِ صحیحہ سے صرف تین قسم کے کتے پالنے اور رکھنے کا ثبوت ملتا ہے: شکار کے لئے، جانوروں کی حفاظت کے لئے اور کھیتی باڑی (زمین) کی حفاظت کے لئے تیسرے کتے کی دلیل کے لئے دیکھئے [صحيح بخاري 2322، صحيح مسلم 1576] اور یہی کتاب [ح 518] ان تین اقسام اور جاسوسی و تفتیش والے کتوں کے علاوہ ہر قسم کے کتے پالنا اور رکھنا حرام ہیں۔ ➋ مصالح مرسلہ اور انسانوں کی خیر خواہی کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ ایسے کتے پالنا جو چور یا گمشدہ چیز کی کھوج لگائیں، شکاری کتے کے حکم میں ہونے کی وجہ سے جائز ہیں۔ ➌ ایسے اعمال سے بچنا ضروری ہے جن سے اخروی نقصان کا خدشہ ہو۔ ➍ مصلحت راجحہ کو اس کام پر ترجیح حاصل ہے جس میں نقصان زیادہ ہو۔ ➎ ثقہ راوی کی زیادت مقبول ہوتی ہے۔ ➏ قیراط وزن اور پیمائش کی ایک مقدار کو کہتے ہیں۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 256
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4289
´جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے کتا پالنے کی رخصت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی کتا پالا تو روزانہ اس کے اجر سے دو قیراط اجر کم ہو گا، سوائے شکاری یا جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتے کے۔“[سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4289]
اردو حاشہ: یہ تفصیلی بحث:4285 میں گزر چکی ہے، البتہ وہاں ایک قیراط کا ذکر تھا یہاں دو قیراط کا ذکر ہے ممکن ہے کتے، کتے کا فرق ہو، یعنی جو زیادہ نقصان دہ ہو، وہاں دو قیراط کی کمی ہوتی ہے اور کم نقصان دہ پر ایک قیراط کی۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا سبب جگہ کا فرق ہو، یعنی شہری آبادی میں دو قیراط اور بادیہ اور کھلی جگہ ایک قیراط وغیرہ۔ بعض لوگوں نے اس فرق کا سبب مدینہ اور غیر مدینہ میں کتا رکھنے کو قرار دیا ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4289
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1487
´کتا پالنے سے ثواب میں کمی کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ایسا کتا پالا یا رکھا جو سدھایا ہوا شکاری اور جانوروں کی نگرانی کرنے والا نہ ہو تو اس کے ثواب میں سے ہر دن دو قیراط کے برابر کم ہو گا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1487]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: قیراط ایک وزن ہے جو اختلاف زمانہ کے ساتھ بدلتا رہا ہے، یہ کسی چیز کا چوبیسواں حصہ ہوتا ہے، کتا پالنے سے ثواب میں کمی کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں: ایسے گھروں میں فرشتوں کا داخل نہ ہونا، گھروالے کی غفلت کی صورت میں برتن میں کتے کا منہ ڈالنا، پھر پانی اور مٹی سے دھوئے بغیر اس کا استعمال کرنا، ممانعت کے باوجود کتے کا پالنا، گھر میں آنے والے دوسرے لوگوں کو اس سے تکلیف پہنچنا وغیرہ وغیرہ۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1487
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:646
646-عبداللہ بن دینار بیان کرتے ہیں: میں سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ بنو معاویہ کی طرف گیا، تو ہم پر ان کے کتے بھونکنے لگے تو سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص کوئی ایسا کتا پالے جو شکار کرنے یا جانوروں کی حفاظت کے لیے نہ ہو، تو اس شخص کے اجر میں سے روزانہ دو قیراط کم ہوجاتے ہیں۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:646]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حدیث میں مذکور وجوہات کے علاہ کتا رکھنا خسارے کا باعث ہے۔ بعض لوگ یہود ونصاریٰ کی نقالی میں اپنے گھروں میں شوقیہ کتے رکھ لیتے ہیں، ایک جرمن اسکالر اس پر بحث کرتا ہوا لکھتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں لوگوں کے اندر کتے پالنے کا شوق خاصا بڑھ گیا ہے، جس کے پیش نظر ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ لوگوں کی توجہ ان خطرات کی طرف مبذول کروائی جائے جو اس سے پیدا ہوتے ہیں، خصوصاً جبکہ لوگ کتا پالنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے، بلکہ اس کے ساتھ خوش طبعی بھی کرنے لگتے ہیں اور وہ اس کو چومتے بھی ہیں، نیز اس کو اس طرح چھوڑ دیا جا تا ہے کہ وہ بچوں اور بڑوں کے ہاتھ چاٹ لے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بچا ہوا کھانا کتوں کے آگے اپنے کھانے کی پلیٹوں میں ہی رکھ دیا جا تا ہے، علاوہ ازیں یہ عادتیں ایسی معیوب ہیں کہ ذوق سلیم ان کو قبول نہیں کرتا اور یہ شائستگی کے خلاف ہیں۔ مزید برآں صحت و نظافت کے اصولوں کے بھی منافی ہے طبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کتے کو پالنے اور اس کے ساتھ خوش طبعی کرنے سے جو خطرات انسان کی صحت اور اس کی زندگی کو لاحق ہوتے ہیں، ان کو معمولی خیال کرنا صحیح نہیں ہے، بہت سے لوگوں کو اپنی نادانی کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کتوں کے جسم پر ایسے جراثیم ہوتے ہیں جو دائمی اور لا علاج امراض کا سبب بنتے ہیں، بلکہ کتنے ہی لوگ اس مرض میں مبتلا ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں، اس جرثومہ کی شکل فیتہ کی ہوتی ہے، اور یہ انسان کے جسم پر پھنسی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں، گو اس قسم کے جراثیم مویشیوں اور خاص طور سے خنزیروں کے جسم پر بھی پائے جاتے ہیں، لیکن نشو ونما کی پوری صلاحیت رکھنے والے جراثیم صرف کتوں پر ہوتے ہیں، یہ جراثیم انسان کے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتے ہیں، یہ اکثر پھیپھڑے، عضلات، تلی، گردہ اور سر کے اندرونی حصے میں داخل ہوتے ہیں، ان کی شکل بہت حد تک بدل جاتی ہے، یہاں تک کہ خصوصی ماہرین کے لیے بھی ان کی شناخت مشکل ہو جاتی ہے، بہر حال اس سے جو زخم پیدا ہوتا ہے، خواہ وہ جسم کے کسی بھی حصے میں پیدا ہو صحت کے لیے سخت مضر ہے، ان جراثیم کا علاج اب تک دریافت نہیں کیا جا سکا ان وجوہ سے ضروری ہے کہ ہم تمام ممکنہ وسائل کے ساتھ اس لاعلاج بیماری کا مقابلہ کریں اور انسان کو اس کے خطرات سے بچائیں“ (اسلام میں حلال وحرام) یعنی کتوں کو رکھنا دین اور دنیاوی دونوں لحاظ سے نقصان ہے، ہاں جن کتوں کو رکھنے کی اجازت ہے، ان کے ساتھ بھی کام کی حد تک رہنا چاہیے، نہ کہ انھیں چومنا اور ہاتھ لگانا چاہیے، ان کے کھانے پینے کے برتن بھی الگ ہونے چاہیے، بلکہ ان کے سونے کی جگہ بھی الگ ہونی چاہیے۔ یاد رہے کہ ایک قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 646
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4023
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے مویشیوں کے کتے اور شکاری کتے کے سوا کوئی کتا رکھا، اس کے عملوں میں ہر روز دو قیراط کم کیے جائیں گے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4023]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: الكلب الضاري سے مراد شکار کرنے کا عادی کتا ہے، کہتے ہیں۔ ضري الكلب: کتا عادی بن گیا۔ فوائد ومسائل: بغیر کسی مصلحت اور حکمت کے بلا ضرورت و فائدہ کتا رکھنا جائز نہیں ہے، اور جو انسان جلب منفعت یا دفع مضرت کی غرض کے سوا کتا رکھتا ہے، اس کے عملوں میں ہر روز ایک یا دو قیراط کی کمی ہو گی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4023
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4024
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے مویشیوں کے کتے اور شکاری کتے کے سوا کوئی کتا رکھا، اس کے عملوں میں ہر روز دو قیراط کم ہو جائیں گے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:4024]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: الكلب الضاري سے مراد شکار کرنے کا عادی کتا ہے، کہتے ہیں۔ ضري الكلب: کتا عادی بن گیا۔ فوائد ومسائل: بغیر کسی مصلحت اور حکمت کے بلا ضرورت و فائدہ کتا رکھنا جائز نہیں ہے، اور جو انسان جلب منفعت یا دفع مضرت کی غرض کے سوا کتا رکھتا ہے، اس کے عملوں میں ہر روز ایک یا دو قیراط کی کمی ہو گی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4024
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5481
5481. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جو کوئی ایسا کتا پالتا ہے جو شکار یا جانوروں کی حفاطت کے لیے نہیں تو اس کے ثواب سے ہر روز دو قیراط کم ہوتے رہیں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5481]
حدیث حاشیہ: کھیتی کی حفاظت کرنے والا کتا بھی اسی میں داخل ہے یعنی اس میں گناہ نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5481
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5482
5482. سیدنا عبداللہ بن عمر سے ایک اور روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے مویشی کی حفاظت یا شکار کی غرض کے علاوہ کتا پالا اس کے ثواب سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہو جاتی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5482]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ (صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حدیث: 2322) لیکن اس حدیث میں ہے کہ جو انسان کھیتی باڑی یا مویشیوں کی حفاظت یا شکار کی غرض کے علاوہ کتا پالتا ہے اس کے ثواب سے روزانہ ایک قیراط کی کمی ہو جاتی ہے لیکن اس قیراط کی مقدار اتنی نہیں جتنی جنازہ پڑھنے اور میت کے دفن میں شمولیت کرنے والے کو بطور ثواب دی جاتی ہے کیونکہ وہ قیراط تو اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا اور یہ اللہ کی طرف سے سزا ہے، اس لیے دونوں میں فرق رکھا گیا ہے۔ (فتح الباري: 5/10)(2) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں دو قیراط کمی جبکہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ایک قیراط کمی کا ذکر ہے، بظاہر دونوں میں تعارض ہے جبکہ دونوں روایات صحیح بخاری کی ہیں؟ اس کا حل یہ ہے کہ کتے میں نقصان پہنچانے کی خصلت جس قدر ہو گی اس قدر ہی ثواب میں کمی ہو گی۔ اگر کتا موذی نہیں ہے تو ایک قیراط ورنہ دو قیراط کم ہوں گے۔ واللہ أعلم۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کھیتی کے لیے کتا رکھنے کا جواز حضرت سفیان بن ابو زہیر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ (صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حدیث: 2323)(3) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ شکار کے لیے کتا گھر میں رکھا جا سکتا ہے اور اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری کتے کے علاوہ کسی بھی کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5482