´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبل الحبلہ کی بیع سے منع فرمایا ہے اور یہ بیع دور جاہلیت میں تھی کہ آدمی اونٹنی اس شرط پر خریدتا کہ اس کی قیمت اس وقت دے گا جب اونٹنی بچہ جنے، پھر وہ بچہ جو اونٹنی کے پیٹ میں ہے وہ (ایک آگے بچہ) جنے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 662»
تخریج: «أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع الغرر وحبل الحبلة، حديث:2143، ومسلم، البيوع، باب تحريم بيع حبل الحبلة، حديث:1514.»
تشریح:
1. مذکورہ حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنین کی فروخت ممنوع ہے‘ جبکہ وہ اپنی ماں کے شکم میں ہو۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ مادہ کے پیٹ میں جو بچہ پرورش پا رہا ہے‘ اس کا بچہ فروخت کرنا ممنوع ہے‘ یعنی اونٹنی کے حمل کا حمل۔
اس کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ یہ بیع معدوم اور مجہول دونوں پہلو رکھتی ہے۔
اور اسے حاصل کرنے کی قدرت نہیں ہوتی کیونکہ ایک طرح یہ دھوکے کی بیع ہے۔
اور یہ قول بھی ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں: کسی شے کی بیع اس وقت تک کرنا کہ اونٹنی بچہ جنم دے‘ یا اس اونٹنی کا بچہ جوان ہو کر بچہ جنے۔
اس میں نہی کی وجہ یہ ہے کہ یہ بیع ایسی ہے جس کی مدت نامعلوم ہے۔
2.حدیث میں مذکور ممنوع بیع کی جو تفسیر وَکَانَ بَیْعًا…الخ کے الفاظ کے ساتھ منقول ہے‘ وہ نافع یا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کی ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادائیگی ٔ قیمت کی میعاد مقرر کی جاتی تھی‘ اس طرح کہ جو بچہ اس وقت اونٹنی کے پیٹ میں زیر پرورش ہے اس کے جوان ہونے پر اس سے جو بچہ پیدا ہوگا وہ اس اونٹ کی قیمت ہوگی۔
اس تفسیر کو امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ نے اختیار کیا ہے۔
وہ اس صورت میں ممانعت کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ رقم کی ادائیگی کی میعاد غیر متعین ہے‘ اس لیے ایسی بیع بھی ممنوع ہے۔