3745. ابن جریج نے کہا: مجھے ابن شہاب نے، بنو ساعدہ کے فرد حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث کے حوالے سے لعان کرنے والوں اور ان کے بارے میں جو طریقہ رائج ہے اس کے متعلق بتایا کہ انصار میں سے ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! آپ کی کیا رائے ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے؟۔۔۔ آگے مکمل قصے سمیت حدیث بیان کی اور یہ اضافہ کیا: ان دونوں نے، میری موجودگی میں، مسجد میں لعان کیا اور انہوں نے حدیث میں (یہ بھی) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے ہی اس نے اسے تین طلاقیں دے دیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی ہی میں اس سے جدا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر دو لعان کرنے والوں کے درمیان یہ تفریق ہی (شریعت کا حتمی طریقہ) ہے۔“
ابن جریج بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابن شہاب نے، لعان کرنے والوں اور اس کے طریقہ کے بارے میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ، جو بنو ساعدہ کے فرد ہیں، کی حدیث کی روشنی میں بتایا کہ ایک انصاری آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: اے اللہ کے رسول! بتائیے، ایک آدمی نے دوسرے مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ پایا ہے؟ اور آگے مذکورہ بالا واقعہ بیان کیا، اور اس حدیث میں یہ اضافہ ہے، تو دونوں نے میری موجودگی میں مسجد میں لعان کیا، اور حدیث میں یہ بھی بیان کیا، خاوند نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی اپنے طور پر، اسے تین طلاقیں دے دیں، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ہی اس سے جدائی اختیار کر لی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لعان کرنے والوں کے درمیان اس طرح جدائی ہو گی۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3745
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوا، مجلس لعان ہی میں لعان کی بنا پر، میاں بیوی میں تفریق ہوجائے گی۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، کا یہی نظریہ ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، کا ایک قول بھی یہی ہے۔ احناف کے نزدیک تفریق، قاضی کے حکم سے ہو گی، حالانکہ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم نہیں دیا، اور علامہ تقی صاحب لکھتے ہیں، ہمارے نزدیک تفریق، طلاق سے ہو گی یا حکم حاکم سے۔ (تکملۃ فتح الملہم، ج1ص: 240)