3743. ہمیں یحییٰ بن یحییٰ نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے امام مالک کے سامنے قراءت کی کہ ابن شہاب سے روایت ہے، حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں خبر دی کہ عویمر عجلانی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عاصم بن عدی انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: عاصم! آپ کی کیا رائے ہے اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے کیا وہ اسے قتل کر دے، اس پر تو تم اسے (قصاصاً) قتل کر دو گے یا پھر وہ کیا کرے؟ عاصم! میرے لیے اس مسئلے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھئے۔ چنانچہ عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے (غیر پیش آمدہ) مسائل کو ناپسند فرمایا اور ان کی مذمت کی، یہاں تک کہ عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ سے جو بات سنی وہ انہیں بہت گراں گزری۔ جب عاصم رضی اللہ تعالی عنہ واپس اپنے گھر آئے تو عویمر رضی اللہ تعالی عنہ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کیا فرمایا؟ عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے عویمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: تو میرے پاس بھلائی (کی بات) نہیں لایا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے کو جس کے متعلق میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، ناپسند فرمایا۔ عویمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں نہیں رکوں گا یہاں تک کہ میں (خود) اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لوں۔ چنانچہ عویمر رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں کی موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کی اس آدمی کے بارے میں کیا رائے ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی (غیر) مرد کو پائے، کیا وہ اسے قتل کرے اور آپ (قصاصاً) اسے قتل کر دیں گے یا پھر وہ کیا کرے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں (قرآن) نازل ہو چکا ہے، تم جاؤ اور اسے لے کر آؤ۔“ حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: ان دونوں نے آپس میں لعان کیا، میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، جب وہ دونوں (لعان سے) فارغ ہوئے، عویمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں نے (اب) اس کو اپنے پاس رکھا تو (گویا) میں نے اس پر جھوٹ بولا تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے ہی انہوں نے اسے تین طلاقیں دے دیں۔ ابن شہاب نے کہا: اس کے بعد یہی لعان کرنے والوں کا (شرعی) طریقہ ہو گیا-
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عویمر عجلانی رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عاصم بن عدی انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور ان سے پوچھا، اے عاصم! آپ مجھے بتائیں، اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو پائے تو کیا اسے قتل کر دے اور تم اسے (قاتل کو) قتل کر دو؟ یا وہ کیا کرے؟ تو آپ میری خاطر رسول اللہ سے پوچھ کر بتائیں، اے عاصم! تو عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، آپ نے ایسے مسائل (جو ابھی پیش نہیں آئے) کے بارے میں پوچھنا ناپسند کیا، اور اس کی مذمت کی، حتی کہ عاصم نے جو کراہت و ناپسندیدگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، وہ اس پر شاق گزری، تو جب عاصم گھر واپس گئے تو ان کے پاس حضرت عویمر آئے، اور پوچھا، اے عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کیا جواب دیا؟ حضرت عاصم نے حضرت عویمر سے کہا، تو میرے لیے خیر کا سبب نہیں بنا، وہ مسئلہ جس کے بارے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا۔ حضرت عویمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اللہ کی قسم! جب تک اس مسئلہ کے بارے میں، میں آپ سے دریافت نہ کر لوں، میں باز نہیں آؤں گا۔ تو حضرت عویمر چلے، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگوں کے درمیان میں پہنچ گئے، اور پوچھا، اے اللہ کے رسول! آپ بتائیں، ایک آدمی دوسرے آدمی کو اپنی بیوی کے پاس پاتا ہے تو کیا اسے قتل کر دے تو آپ اس کو قتل کر دیں گے؟ یا وہ کیا کرے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں حکم نازل ہو چکا ہے، تم جا کر اسے لے آو۔“ حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، تو ان دونوں نے لعان کیا، اور میں بھی لوگوں کے ساتھ، آپ کی مجلس میں حاضر تھا، تو جب میاں بیوی لعان سے فارغ ہو گئے، تو حضرت عویمر نے کہا، اے اللہ کے رسول! اگر اب میں اس کو اپنے پاس رکھوں، تو میں نے اس کے بارے میں جھوٹ بولا ہے، اس لیے پیش ازیں کے آپ اسے حکم دیتے اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، امام ابن شہاب کہتے ہیں، لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ جاری ہو گیا (کہ لعان سے دونوں میں تفریق ہو جاتی ہے)۔