عباد بن عباد نے ہمیں عاصم سے حدیث بیان کی، انہوں نے معاذ عدویہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب ہم میں سے کسی بیوی کی باری کا دن ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کسی اور بیوی کے ہاں جانے کے لیے) ہم سے اجازت لیتے تھے، حالانکہ یہ آیت نازل ہو چکی تھی: "آپ ان میں سے جسے چاہیں (خود سے) الگ رکھیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں۔" تو معاذہ نے ان سے پوچھا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے اجازت لیتے تو آپ ان سے کیا کہتی تھیں؟ انہوں نے جواب دیا: میں کہتی تھی: اگر یہ (اختیار) میرے سپرد ہے تو میں اپنے آپ پر کسی کو ترجیح نہیں دیتی
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب ہم میں سے کسی بیوی کی باری ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اجازت لے کر دوسری کے پاس جاتے، حالانکہ یہ آیت نازل ہو چکی تھی۔ ان میں سے جس کو چاہیں الگ رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے پاس جگہ دیں۔ (سورۃ احزاب: 51)
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3682
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقصد یہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت و معاشرت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کی جو برکات اور خیرات ہیں ان سے محروم ہونا نہیں چاہتی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3682
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2136
´عورتوں کے درمیان باری مقرر کرنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آیت کریمہ: «ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء»”آپ ان میں سے جسے آپ چاہیں دور رکھیں اور جسے آپ چاہیں اپنے پاس رکھیں“(سورۃ الاحزاب: ۵۱) نازل ہوئی تو ہم میں سے جس کسی کی باری ہوتی تھی اس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اجازت لیتے تھے۔ معاذہ کہتی ہیں کہ یہ سن کر میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: آپ ایسے موقع پر کیا کہتی تھیں؟ کہنے لگیں: میں تو یہ ہی کہتی تھی کہ اگر میرا بس چلے تو میں اپنے اوپر کسی کو ترجیح نہ دوں۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2136]
فوائد ومسائل: سورۃ احزاب کی اس آیت نمبر 51 میں اللہ عزوجل نے اپنئ نبی ﷺ کو بیویوں میں باری کے مسئلے میں بصراحت رخصت عنایت فرمائی ہے مگر آپ ﷺاس رخصت کے باوجود تقسیم کی وعزیمت پر قائم رہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ کا اپنے آپ کو ترجیح دینا کسی نفسانی حظ کی بنا پر نہ تھا بلکہ اس شرف خدمت کی بنا پر تھا جو ان کے قریب سے حاصل ہوتا تھا اور سب سے بڑھ کر نزول برکات اوراللہ کے ہاں رفع درجات کا سبب تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2136