وکیع نے ہمیں ہشام بن عروہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شام فتح کرلیا جائے گا تو کچھ لوگ انتہائی تیزی سے اونٹ ہانکتے ہوئے اپنے اہل وعیال سمیت مدینہ سے نکل جائیں گے، حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہوگا اگر وہ جانتے ہوں۔پھر یمن فتح ہوگا تو کچھ لوگ تیز رفتاری سے اونٹ ہانکتے ہوئے اپنے اہل وعیال سمیت مدینہ سے نکل جائیں گے، حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہوگا اگر وہ جانتے ہوں، پھر عراق فتح ہوگا تو کچھ تیزی سے اونٹ ہانکتے ہوئے اپنے اہل وعیال سمیت مدینہ سے نکل جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہوگا اگر وہ جانتے ہوں۔"
حضرت سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شام فتح ہو گا، تو مدینہ سے کچھ لوگ اپنے اہل و عیال کو لے کر اپنی سواریوں کو ہانکتے ہوئے نکلیں گے، حالانکہ مدینہ میں ان کے لیے رہنا بہتر ہو گا، اے کاش! وہ اس کو جانتے، پھر یمن فتح ہو گا، تو کچھ لوگ مدینہ سے اپنے متعلقین کو لے کر اپنی سواریوں کو ہانکتے ہوئے نکلیں گے، درآں حالیکہ مدینہ ان کے حق میں بہتر ہو گا، کاش وہ اس حقیقت کو جانتے، پھر عراق فتح ہو گا، تو کچھ لوگ اپنے اہل کو لے کر، سواریوں کو ہانکتے نکلیں گے، حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہو گا، کاش وہ سمجھتے۔“
تفتح اليمن فيأتي قوم يبسون فيتحملون بأهلهم ومن أطاعهم والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون وتفتح الشأم فيأتي قوم يبسون فيتحملون بأهليهم ومن أطاعهم والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون وتفتح العراق فيأتي قوم يبسون فيتحملون بأهليهم ومن أطاعهم والمدينة خير لهم لو كا
يفتح اليمن فيأتي قوم يبسون فيتحملون بأهليهم ومن أطاعهم والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون ثم يفتح الشام فيأتي قوم يبسون فيتحملون بأهليهم ومن أطاعهم والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون ثم يفتح العراق فيأتي قوم يبسون فيتحملون بأهليهم ومن أطاعهم والمدينة خير لهم
تفتح الشام فيخرج من المدينة قوم بأهليهم يبسون والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون ثم تفتح اليمن فيخرج من المدينة قوم بأهليهم يبسون والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون ثم تفتح العراق فيخرج من المدينة قوم بأهليهم يبسون والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون
يفتح اليمن، فيأتي قوم يبسون فيحملون بأهليهم ومن أطاعهم، والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون، ثم يفتح العراق، فيأتي قوم يبسون فيحملون بأهليهم ومن أطاعهم، والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون، ثم يفتح الشام، فيأتي قوم يبسون فيحملون بأهليهم ومن أطاعهم، والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3364
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: يُبِسُّوْنَ (ض۔ ن، افعال) : بقول ابو عبید، اپنی سواریوں کو ہانکیں گے، اور بقول داؤدی، اپنی سواریوں کو ڈانٹ ڈپٹ کریں گے، اور بقول بعض لوگوں کو سرسبزوشاداب علاقوں کی دعوت دیں گے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند پیش گوئیاں فرمائی ہیں جن کا ظہورہوچکا ہے: الف-آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی کہ شام، یمن اور عراق فتح ہوں گے اوریہ تینوں علاقے خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں فتح ہوئے۔ جس سے ان کی خلافت کی حقانیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ: ﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ ......﴾ کا وعدہ انہیں کے ہاتھوں پورا ہوا۔ ب۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ان علاقوں کی فتوحات کے وقت کچھ لوگ مدینہ کو چھوڑ کر ان علاقوں میں جا بسیں گے۔ حالانکہ مدینہ میں اقامت ان کے لیے بہتر ہو گی، تو واقعی کچھ لوگ اہل وعیال اوراپنے متعلقین کو لے کر ان ملکوں میں جا بسے۔ ج۔ ان علاقوں کی فتوحات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ فرمودہ ترتیب کے مطابق واقع ہوئیں پہلے یمن فتح ہوا پھر شام اور عراق جیسا کہ اگلی روایت میں آرہا ہے لیکن اس کا مصداق وہ لوگ ہیں جو دوسرے علاقوں کو ترجیح دیتے ہوئے اور مدینہ سے بے نیازی اختیار کرتے ہوئے بغیر کسی دینی ضرورت کے دوسرے علاقوں میں جا بسے جو مدینہ کی محبت کو دل میں بٹھائے ہوئے کسی دینی ضرورت کے تحت دوسری جگہ جا بسے وہ اس کا مصداق نہیں ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3364
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:889
889- سیدنا سفیان بن ابوزہیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”یمن فتح کیا جائے گا، تو کچھ لوگ اونٹوں کو ہانک کر لائیں گے اس پر اپنے گھروالوں کو اپنے ماتحتوں کو سوار کریں گے (اور مدینہ چھوڑ کر چلے جائیں گے) حالانکہ اگر انہیں علم ہوتا تو مدینہ ان کے لیے زیادہ بہتر تھا۔ پھر عراق فتح کیا جائے گا، تو کچھ لوگ اپنے اونٹوں کو ہانک کر لائیں گے وہ ان پر اپنے گھر والوں اور اپنے ماتحتوں کو سوار کرکے لے جائیں گے حالانکہ اگر وہ علم رکھتے تو مدینہ ان کے لیے زیادہ بہتر تھا۔ پھر شام فتح ہوگا، تو کچھ لوگ اپنے اونٹوں کو ہانک کر لائیں گے وہ ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:889]
فائدہ: اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند پیشین گوئیوں کا ذکر ہے۔ اول یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام اور عراق و یمن کی فتح کی خبر دی اور ویسا ہی ہوا کہ خلفائے راشدین کے ہاتھ پر یہ ممالک فتح ہوئے اور مصداق خلافت راشدہ یہی لوگ ٹھہرے اور مواعید الٰہی ان کے ہاتھ پر پورے ہوئے۔ دوسرے یہ کہ لوگ ان ملکوں میں جا بسیں گے اور اپنے اہل و عیال کو لے جائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ تیسرے یہ کہ مفتوح ہونا ان بلاد کا اس ترتیب سے ہوگا کہ پہلے یمن پھر شام پھر عراق اور اسی ترتیب سے یہ شہر فتح ہوئے اور سب سے بڑی فضیلت سکونت مدینہ طیبہ کی ثابت ہوئی۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 888
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1875
1875. حضرت سفیان بن ابو زبیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”(جب) یمن فتح ہوگا تو کچھ لوگ اپنے اونٹوں کو ہانکتے ہوئے آئیں گے۔ اپنے اہل خانہ کو اورجو ان کا کہا مانیں گے انھیں سوار کرکے مدینہ طیبہ سے لے جائیں گے۔ حالانکہ اگر وہ جان لیں تو مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر ہوگا۔ اور(جب) شام فتح ہوگا تو بھی ایک جماعت اپنے اونٹ ہانکتی ہوئی آئے گی۔ اپنے اہل وعیال اور ان کی تابعداری کرنے والوں کو لاد کر لے جائے گی۔ کاش!انھیں معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر ہے (اسی طرح) عراق فتح ہوگا تو بھی کچھ لوگ اپنے جانور ہانکتے آئیں گے مدینہ طیبہ سے اپنے گھر والوں اور متعلقین کو نکال کر لے جائیں گے۔ کاش!وہ جانتے کہ مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر تھا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1875]
حدیث حاشیہ: آنحضرت ﷺ کی بشارت بالکل صحیح ثابت ہوئی، مدینہ ایک مدت تک ایران، عرب، مصر اور شام توران کا پایہ تخت رہا اور خلفائے راشدین نے مدینہ منور میں رہ کر دور دور اطراف عالم میں حکومت کی، پھر بنو امیہ نے اپنا پایہ تحت شام کو قرا ردیا اورعباسیہ کے وقت میں بغداد اسلام کی راجدھانی قرارپایا، آخری خلیفہ معتصم باللہ ہوا اور اس کے زوال سے اسلامی خلافت مٹ گئی، مسلمان گروہ گروہ تقسیم ہو کر ہر جگہ مغلوب ہو گئے، اب تک یہی حال ہے کہ عربوں کی ایک بڑی تعداد ہے، ان کی حکومتیں ہیں، باہمی اتحاد نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ قبلہ اول مسجد اقصیٰ پر یہود قابض ہیں۔ إنا للہ و إنا إلیه راجعون۔ اللهم انصر الإسلام و المسلمین و اخذل الکفرة و الفجرة و الیهود والملحدین (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1875
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1875
1875. حضرت سفیان بن ابو زبیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”(جب) یمن فتح ہوگا تو کچھ لوگ اپنے اونٹوں کو ہانکتے ہوئے آئیں گے۔ اپنے اہل خانہ کو اورجو ان کا کہا مانیں گے انھیں سوار کرکے مدینہ طیبہ سے لے جائیں گے۔ حالانکہ اگر وہ جان لیں تو مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر ہوگا۔ اور(جب) شام فتح ہوگا تو بھی ایک جماعت اپنے اونٹ ہانکتی ہوئی آئے گی۔ اپنے اہل وعیال اور ان کی تابعداری کرنے والوں کو لاد کر لے جائے گی۔ کاش!انھیں معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر ہے (اسی طرح) عراق فتح ہوگا تو بھی کچھ لوگ اپنے جانور ہانکتے آئیں گے مدینہ طیبہ سے اپنے گھر والوں اور متعلقین کو نکال کر لے جائیں گے۔ کاش!وہ جانتے کہ مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر تھا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1875]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں اس حدیث کا سبب بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے راوئ حدیث حضرت سفیان بن ابو زہیر ؓ کو کسی مہم کے لیے روانہ کیا۔ جب وہ وادئ عقیق پہنچے تو ان کا گھوڑا بیمار ہو گیا۔ انہوں نے واپس آ کر رسول اللہ ﷺ سے اپنے گھوڑے کے متعلق عرض کی تو آپ اس کے لیے گھوڑے کا بندوبست کرنے کی غرض سے نکلے۔ حضرت ابوجہم بن حذیفہ ؓ کے پاس ایک گھوڑا تھا۔ آپ نے اس سے اس کی قیمت پوچھی تو اس نے کہا: مجھے قیمت کی چنداں ضرورت نہیں، آپ اسے لے لیں اور جسے چاہیں دے دیں۔ جب آپ وہاں سے واپس ہوئے اور بئراہاب پر پہنچے تو حضرت سفیان بن ابو زہیر ؓ سے فرمایا: ”مدینہ طیبہ کی آبادی اس مقام تک آ جائے گی۔ “ پھر آپ نے فرمایا: ”ملک شام فتح ہو گا، مدینہ طیبہ کے لوگ وہاں جائیں گے تو اس کی خوشحالی اور زرخیزی انہیں خیرہ کر دے گی۔ کاش کے مدینہ طیبہ کی قدروقیمت انہیں معلوم ہو۔ بہرحال ان کا مدینہ طیبہ میں رہنا بہتر ہو گا۔ “(مسندأحمد: 220/5)(2) رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی، چنانچہ حدیث میں ذکر کردہ ترتیب کے مطابق یہ علاقے فتح ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک اور سیدنا ابوبکر ؓ کے دور خلافت میں یمن کے علاقے فتح ہوئے، اس کے بعد شام پھر عراق فتح ہوا لیکن رسول اللہ ﷺ نے مدینہ سے کوچ کر کے وہاں جانے کو پسند نہیں فرمایا کیونکہ مدینہ طیبہ کا حرم، وحی اور برکات اترنے کی جگہ ہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ بہرحال مدینہ طیبہ سے نکل کر کسی دوسرے شہر میں آباد ہونے والا وہ شخص قابل مذمت ہے جو نفرت و کراہت کرتے ہوئے یہاں سے جائے، البتہ جہاد، حصول علم، تبلیغ دین یا کسی اور ضرورت کے پیش نظر یہاں سے جانے والا اس وعید سے خارج ہے۔ (فتح الباري: 120/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1875