85. باب: مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کی دعا اور اس کی حرمت اور اس کے شکار، اور درخت کاٹنے کی حرمت، اور اس کے حدود حرم کا بیان۔
اسماعیل بن محمد نے عا مر بن سعد سے روایت کی کہ حضرت سعد (بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ)(مدینہ کے قریب) عقیق میں اپنے محل کی طرف روانہ ہو ئے انھوں نے ایک غلام کو دیکھا وہ درخت کا ٹ رہا تھا یا اس کے پتے چھاڑ رہا تھا انھوں نے اس سے (اس لباس اور سازو سامان) سلب کر لیا۔ جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ (مدینہ) لو ٹے تو غلام کے مالک ان کے پاس حا ضر ہو ئے اور ان سے گفتگو کی کہ انھوں نے جو ان کے غلام کو۔۔۔یا انھیں۔۔۔واپس کردیں۔انھوں نے کہا: اللہ کی پناہ کہ میں کوئی ایسی چیز واپس کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بطور غنیمت دی ہے اور انھوں نے وہ (سامان) انھیں واپس کرنے سے انکا ر کر دیا۔
عامر بن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوار ہو کر اپنے گھر جو عقیق میں واقع تھا کی طرف چلے تو راستہ میں ایک غلام کو درخت کاٹتے یا اس کے پتے جھاڑتے پایا، تو اس کا سامان چھین لیا، تو جب حضرت سعد واپس آئے، ان کے پاس غلام کے مالک آئے اور ان سے کہا، (گفتگو کی) کہ ان کے غلام کو یا ان کو وہ کچھ واپس کر دیں، جو ان کے غلام سے لیا ہے، تو انہوں نے کہا، اللہ کی پناہ کہ میں وہ چیز واپس کر دوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور انعام عنایت فرمائی ہے، اور سامان واپس کرنے سے انکار کر دیا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3320
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی انسان مدینہ کی حرمت وعظمت کو پامال کرتے ہوئے وہاں سے درخت کاٹے گا یا شکار کرے گا تو اس سے اس کا سازوسامان چھین لیا جائے گا لیکن جمہور ائمہ کے نزدیک اس نے ایک نا جائز کام کیا لیکن اس پر کسی قسم کا تاوان یا فدیہ نہیں ہے، لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا عمل تو اس حدیث کے مطابق رہا ہے۔ اگرچہ بعد والوں نے اس کو نظر انداز کر دیا ہے۔