57. باب: اس چیز کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ نے دل میں آنے والے ان وسوسوں کو معاف کر دیا ہے جب تک کہ دل میں پختہ نہ ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور اس بات کا بیان کہ نیکی اور گناہ کے ارادے کا کیا حکم ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت اتری: ” آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، اللہ ہی کا ہے اور تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ تعالیٰ اس پر تمہارا محاسبہ کرے گا، پھر جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا اور ا للہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ساتھیوں پر یہ بات انتہائی گراں گزری۔ کہا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! (پہلے) ہمیں ایسے اعمال کا پابند کیا گیا جو ہماری طاقت میں ہیں: نماز، روزہ، جہاد اور صدقہ او راب آپ پر یہ آیت اتری ہے جس کی ہم طاقت نہیں رکھتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کیا تم وہی بات کہنا چاہتے ہو جو تم سے پہلے دونوں اہل کتاب نے کہی: ہم نے سنا اور نافرمانی کی! بلکہ تم کہو: ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اے ہمارے رب! تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔“ جب صحابہ نے یہ الفاظ دہرانے لگے اور ان کی زبانیں ان الفاظ پر رواں ہو گئیں، تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: ”رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس (ہدایت) پر ایمان لائے جوان کے رب کی طرف ان پر نازل کی گئی اور سارے مومن بھی۔ سب ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر، (اورکہا:) ہم (ایمان لانے میں) اس کے رسولوں کے درمیان فرق نہیں کرتے اور انہوں نے کہا: ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، اے ہمارے رب!تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔“ چنانچہ جب انہوں نے یہ (مان کر اس پر عمل) کیا تو اللہ عزوجل نےاس آیت (کے ابتدائی معنی) منسوخ کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی: ” اللہ کسی شخص پر اس کی طاق سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس نے جو (نیکی) کمائی اورجو (برائی) کمائی (اس کا وبال) اسی پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا ہم خطا کریں تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا۔“(اللہ نے) فرمایا: ہاں۔ (انہوں نے کہا:)” اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ان لوگوں پر ڈالا جوہم سے پہلے (گزر چکے) ہیں۔“(اللہ نے) فرمایا: ہاں! (پھر کہا:)”اے ہمارے رب! ہم سے وہ چیز نہ اٹھوا جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں۔“(اللہ نے) فرمایا: ہاں! (پھر کہا:)” او رہم سےدرگزر فرما اور ہمیں بخشش دے اور ہم پر مہربانی فرما۔ تو ہی ہمارا کارساز ہے، پس تو کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔“(اللہ نے) فرمایا: ہاں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت اتری: ”آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے اور تمھارے نفسوں (دلوں) میں جو کچھ ہے اس کو ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ اس پر تمھارا محاسبہ کرے گا، پھر جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا۔ اور اللہ جو چاہے کر سکتا ہے۔“(بقرة: 284) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں پر شاق گزری تو وہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر دو زانو بیٹھ گئےاور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہمیں ایسے اعمال کا مکلّف ٹھہرایا گیا ہے جو ہماری مقدرت میں ہیں (ہم کر سکتے ہیں) نماز، روزہ، جہاد اور صدقہ اور اب آپ پر یہ آیت اتری ہے، جس پر عمل ہمارے بس میں نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم دونوں کتابوں والوں (یہود اور نصاریٰ) جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں کی طرح کہنا چاہتے ہو، کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی (نہ مانا)۔ بلکہ یوں کہو: ہم نے سنا اور اطاعت کی (مانا)۔ اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش کے طلب گار ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔“ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے کہا: ”ہم نے سن کر مان لیا، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف پہنچنا ہے۔“ جب صحابہ نے یہ الفاظ پڑھے تو ان کے لیے ان کی زبانیں نرم ہو گئیں، (آسانی سے الفاظ ان کی زبانوں پر جاری ہو گئے) اللہ نے پہلی آیت کے بعد یہ آیات اتاریں۔ ”اور رسول پر اس کے رب کی طرف سے جو کچھ اتارا گیا اس پر رسول اور مومن ایمان لے آئے، سب ایمان لائے اللہ اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔ ہم اس کے رسولوں کے درمیان (ایمان لانے میں) بالکل فرق نہیں کرتے اور انھوں نے کہا: ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا۔ اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش کے خواستگار ہیں اور تیری ہی طرف واپسی ہے۔“(بقرة: 285) جب انھوں نے یہ کہا، تو اللہ نے آیت اتاری، جس نے پہلی آیت کو منسوخ کردیا: ”اللہ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زائد تکلیف نہیں دیتا (ذمہ داری نہیں ڈالتا) اس کے نفع کے لیے ہیں (جو نیکیاں) اس نے کمائیں اور اسی پر وبال ہے (ان برائیوں کا) جو اس نے کیں۔ اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا یا اگر ہم چوک جائیں (تو پھر بھی نہ پکڑنا)(اللہ نےفرمایا: ”ٹھیک ہے“) اے ہمارے مالک! اور ہم پر بوجھ نہ ڈال ان لوگوں کی طرح جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں (اللہ نے فرمایا: ”ٹھیک ہے“) اے ہمارے آقا! ہم کو ہماری طاقت سے زیادہ احکام کا مکلّف نہ ٹھہرا (ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں)(اللہ نے فرمایا: ”اچھا“) اور ہم سے در گزر فرما اور ہمیں بخش دے۔ اور ہم پر مہربانی فرما! تو ہمارا مولیٰ ہے کافروں کے مقابلہ میں ہماری نصرت فرما۔“(اللہ نے فرمایا: ”ٹھیک ہے”)۔ (سورۂ بقرہ: 286)
ترقیم فوادعبدالباقی: 125
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14014)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 329
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : نَسْخٌ: کا لغوی معنی ہے ازالہ کرنا، ہٹا دینا، کہتے ہیں: "نَسَخَتِ الشَّمْسُ الظِّلَّ" ”دھوپ نے سایہ زائل کر دیا۔ “ دوسرا معنی ہے: نقل کرنا، کہتے ہیں: "نَسَخْتُ الْكِتَابَ" ”میں نے کتاب نقل کی۔ “ فوائد ومسائل: صحابہ کرامؓ ﴿مَا فِي أَنفُسِكُمْ﴾ کے (ما) کو عام سمجھا، کہ دل کے اندر جو وساوس آتے ہیں، یا جن خیالات کا خطور ہوتا ہے، یا دل کے اندر جو عقائد وافکار جم جاتے ہیں، سب اس میں داخل ہوتے ہیں۔ جب کہ دل کے اندر پیدا ہونے والے خیالات یا وساوس جو آتے اور گزرجاتے ہیں، وہ انسان کے بس میں نہیں ہیں۔ اگر ان پر بھی مواخذہ ہو تو کوئی انسان مواخذہ سے بچ نہیں سکے گا، اس لیے یہ آیت ان کے لیے انتہائی پریشانی اور اضطراب کا باعث بنی، اور وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، جبکہ یہ ظاہری معنی مراد نہیں تھا۔ مواخذہ تو انہی افکار ونظریات یا دل میں جم جانے والے عقائد وتصورات پر ہے جن کو انسان شعوری طور پر دل میں جگہ دیتا ہے، اس لیے آپ نے جواب دیا: اہل کتاب والا طرز عمل اختیار نہ کرو، کہ جو کام ان کے بس میں ہوتے تھے، وہاں بھی ان کا عمل سَمِعْنَا اور عَصَیْنَا تھا کہ (سن لیا لیکن عمل نہیں کریں گے) ۔ صحابہ کرامؓ نے سر تسلیم ختم کر دیا، تو اگلی آیت میں ظاہری معنی لینے کی تردید کر دی گئی اور پہلی آیت کا مفہوم واضح ہوگیا۔ ظاہری معنی کی تبدیلی وتغییر یا ازالہ کو نسخ سے تعبیر کیا گیا ہے، رفع حکم والا معنی مراد نہیں ہے کہ پہلے تو یہی حکم کہ وساوس وخطرات پر بھی مواخذہ ہوگا، جو انسان کے بس میں نہیں ہیں اور پھر ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا﴾ سے اس حکم کو منسوخ کر دیا گیا ہو، بلکہ اللہ کا مقصد پہلے ہی سے دل میں جم جانے عقائد واعمال تھے۔