اسحٰق بن ابراہیم اور علی بن خشرم نے کہا: ہمیں عیسٰی بن یونس نے خبر دی، نیز منجاب بن حارث تمیمی نے کہا: ہمیں ابن مسہر نے خبر دی، نیز ابو کریب نے کہا: ہمیں ابن ادریس نے خبر دی، پھر ان تینوں (عیسیٰ، ابن مسہر اور ابن ادریس) نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی۔ ابوکریب نے کہا: ابن ادریس نے کہا: پہلے مجھے میرے والد نے ابان بن تغلب سے اور انہوں نے اعمش سے روایت کی، پھر میں نے یہ روایت خود انہی (اعمش) سے سنی۔
امام صاحبؒ اپنے بہت سے دوسرے اساتذہ سے مذکورہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 124
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (323)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 328
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ظلم کا لغوی معنی "وَضْعُ الشَّيْءِ فِيْ غَیْرِ مَحَلِهِ" ہے، ”کسی چیز کو اس کے موقع اور محل کی بجائے دوسرے محل میں رکھنا“ یعنی بے جا کام کرنا، اس اعتبار سے ایک حقیر اور معمولی گناہ بھی ظلم ہے اور بڑے سے بڑا گناہ بھی ظلم ہے، گویا ظلم کلی مشکک ہے، جس کے تمام افرا د وجزئیات یکساں درجہ کے نہیں ہوتے۔ اس لیے صحابہ کے لیے یہ آیت نا گواری کا باعث بنی کہ چھوٹا موٹا گناہ تو ہر فرد بشر سے صادر ہوجاتا ہے، اس سے تو معصوم کے سوا کوئی نہیں بچ سکتا، اس لیے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: کہ ظلم کس سے صادر نہیں ہوتا؟ تو آپ نے بتا دیا: کہ یہا ں ظلم سے مراد، ہر قسم کا ظلم نہیں ہے، بلکہ وہ ظلم ہے جو ایمان کے ساتھ جمع ہو کر اس کے مٹانے کا باعث بنتا ہے۔ یعنی شرک مراد ہے، جو انسان کے ایمان کو ختم کر دیتا ہے۔ شرک کے سوا کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جو ایمان کو کالعدم قرار دے۔