فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2660
´رات ذوالحلیفہ میں پڑاؤ ڈالنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ کے شروع ہونے کی جگہ میں رات گزاری اور اس کی مسجد میں نماز پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2660]
اردو حاشہ:
(1) یہاں سے احرام کا طریقہ بیان کرنا مقصود ہے۔ مدینہ منورہ والوں کا میقات ذوالحلیفہ ہے، لہٰذا آپ نے وہاں رات گزاری۔ صبح احرام باندھا۔ وہاں رات گزارنا کوئی ضروری نہیں۔ اس زمانے میں سفر کئی دنوں پر محیط ہوتا تھا، اس لیے رات گزارنے کی گنجائش تھی، اب تیز رفتار سفر کا دور ہے۔
(2) ابتداء ً سے مراد یہ ہے کہ مکہ مکرمہ کو جاتے ہوئے ابتدائے سفر میں، نہ کہ واپسی کے وقت۔
(3) ”مسجد“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وہاں کوئی مسجد نہیں تھی، بعد میں بنائی گئی۔ عین اسی جگہ جہاں آپ نے نماز پڑھی تھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2660
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2661
´رات ذوالحلیفہ میں پڑاؤ ڈالنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں آیا گیا اور آپ ذوالحلیفہ کے پڑاؤ کی جگہ میں تھے اور کہا گیا کہ آپ بابرکت بطحاء میں ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2661]
اردو حاشہ:
”بابرکت وادی میں ہیں۔“ کیونکہ یہ وادی دوران سفر حج میں بہت سے انبیاء کی فرد گاہ رہی تھی۔ شام اور فلسطین انبیاء علیہم السلام کے علاقے ہیں۔ وہاں سے مکہ مکرمہ آتے ہوئے یہ وادی راستے میں پڑتی تھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2661
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2823
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر حج کے آغاز میں رات ذوالحلیفہ میں گزاری اور اس کی مسجد میں نماز پڑھی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2823]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لیے مدینہ منورہ سے پچیس (25)
ذوالقعدہ کو ہفتہ کے دن ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد نکلے اور عصر کی نماز ذوالحلیفہ میں آ کر ادا کی،
رات ذوالحلیفہ میں بسر کی اوراتوار کے دن کی نماز ظہر پڑھنے کے بعد وہاں سے مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے مہینہ انتیس دن کا تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار ذوالحجہ کو اتوار کے دن مکہ معظمہ پہنچ گئے اور نو (9)
ذوالحجہ عرفہ کا دن،
جمعۃ المبارک تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2823
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3286
حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک فرشتہ آیا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ کی وادی عتیق کے اندر اپنے پڑاؤ میں تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبارک بطحاء میں ہیں، راوی موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ سالم نے نماز کی جگہ میں جہاں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اونٹ بٹھایا کرتے تھے، اونٹ بٹھائے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑاؤ کا قصد کرتے تھے، اور وہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3286]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حج اور عمرہ پر جاتے وقت اور واپسی پر ذوالحلیفہ میں پڑاؤ کرتے تھے،
اور وہاں نماز پڑھتے تھے،
اس لیے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہاں اترنا اور نماز پڑھنا بہتر ہے،
واپسی پر وہاں اترنا اور نماز پڑھنا حج کا حصہ نہیں ہے،
وادی عقیق متبرک وادی ہے،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں بعض اہل مدینہ وہاں آ کر نماز پڑھتے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3286
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1535
1535. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کو ایک خواب دکھایا گیا جبکہ آپ ذوالحلیفہ کی ایک وادی (عقیق) کے درمیان رات کا پڑاؤ کیے ہوئے تھے۔ آپ سے کہا گیا: آپ اس وقت ایک بابرکت میدان میں ہیں۔ راوی حدیث کہتا ہے کہ حضرت سالم بن عبد اللہ نے ہمیں اسی مقام پر ٹھہرایا۔ وہ اسی جگہ کو تلاش کرتے جہاں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اونٹ بٹھایا کرتے تھے اور وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے پڑاؤ کا قصد کرتے تھے، بطن وادی میں وہ مقام مسجد کی نچلی جانب ہے، یعنی پڑاؤ کرنے والوں اور راستے کے درمیان میں واقع ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1535]
حدیث حاشیہ:
حدیث سے وادی کی فضیلت ظاہر ہے۔
اس میں قیام کرنااور یہاں نمازیں ادا کرنا باعث اجر و ثواب اور اتباع سنت ہے۔
تبع جب مدینہ سے واپس ہوا تو اس نے یہاں قیام کیا تھااور اس زمین کی خوبی دیکھ کر کہا تھاکہ یہ تو عقیق کی مانند ہے۔
اسی وقت سے اس کا نام عقیق ہوگیا۔
(فتح الباری)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1535
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1799
1799. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوتے تو مسجد شجرہ میں نماز پڑھتے اور جب واپس تشریف لاتے تو ذوالحلیفہ کی وادی کے نشیب میں نماز ادا کرتے اور صبح تک وہاں رات بسر کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1799]
حدیث حاشیہ:
پھر مدینہ میں دن میں تشریف لاتے لہٰذا مناسب ہے کہ مسافر خاص طور پر سفر حج سے واپس ہونے والے دن میں اپنے گھروں میں تشریف لائے کہ اس میں بھی شارع ؑ نے بہت سے مصالح کو مد نظر رکھا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1799
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7345
7345. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپکو ایک خواب دکھایا گیا جبکہ آپ مقام ذوالحلیفہ میں محو استراحت تھے۔ آپ سے کہا گیا: بلاشبہ آپ بابرکت وادی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7345]
حدیث حاشیہ:
ذوالحلیفہ میں ایک مبارک وادی ہے جس کا ذکر کیا گیا۔
حافظ نے کہا امام بخاری نے اس باب میں جو احادیث بیان کیں اس سے مدینہ کی فضیلت ظاہر کی اور اس کی فضیلت میں شک کیا ہے؟ وہاں وحی اترتی رہی‘ وہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر ہے اور منبر ہے جو بہشت کی ایک کیاری ہے کلام اس میں ہے کہ مدینہ کے عالم کیا دوسرے ملکوں کے عالموں پر مقدم ہیں تو اگر یہ مقصود ہو کہ آنحضرت کے زمانہ میں یا اس زمانہ میں جب تک صحابہ مدینہ میں جمع تھے تو یہ مسلم ہے۔
اگر یہ مراد ہو کہ ہر زمانہ میں تو اس میں نزاع ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ مدینہ کے عالم ہر زمانہ میں دوسرے ملکوں کے عالموں پر مقدم ہوں۔
اس لیے کہ ائمہ مجتہدین کے زمانہ کے بعد پھر مدینہ میں ایک بھی عالم ایسا نہیں ہوا جو دوسرے ملکوں کے کسی عالم سے بھی زیادہ علم رکھتا ہوں چہ جائیکہ دوسرے ملکوں کے سب عالموں سے بڑھ کر ہو بلکہ مدینہ میں ایسے ایسے بدعتی اور بد طینت لوگ جا کر رہے جن کی بد نیتی اور بد طینتی میں کوئی شک نہیں ہو سکتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7345
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:484
484. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ جب عمرے کے لیے جاتے، اسی طرح حجۃ الوداع میں جب حج کے لیے تشریف لے گئے تو ذوالحلیفہ میں اس کیکر کے نیچے پڑاؤ کرتے جہاں اب مسجد ذوالحلیفہ ہے۔ اور جب آپ جہاد، حج یا عمرے سے (مدینے) واپس آتے اور اس راستے سے گزرتے تو وادی عقیق کے نشیب میں اترتے۔ جب وہاں سے اوپر چڑھتے تو اپنی اونٹنی کو بطحاء میں بٹھاتے جو وادی کے مشرقی کنارے پر ہے اور آکر شب میں وہیں آرام فرماتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔ یہ مقام اس مسجد کے پاس نہیں جو پتھروں سے بنی ہے اور نہ اس ٹیلے پر ہے جس پر مسجد ہے بلکہ اس جگہ ایک گہرا نالا تھا۔ عبداللہ بن عمر ؓ اس کے پاس نماز پڑھا کرتے تھے۔ اس کے اندر کچھ (ریت کے) ٹیلے تھے، رسول اللہ ﷺ وہیں نماز پڑھتے تھے۔ (راوی کہتا ہے) لیکن اب نالے کی رو (پانی کے بہاؤ) نے وہاں کنکریاں بچھا دی ہیں اور اس مقام کو چھپا دیا ہے جہاں عبداللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:484]
حدیث حاشیہ:
اس باب کی احادیث میں جن مساجد کا ذکر ہے ان میں سے اکثر لاپتہ ہوچکی ہیں۔
وہ درخت اورنشانات بھی ختم ہوچکے ہیں جن کے ذریعے سے ان مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اب ان مساجد میں سے صرف ذوالحلیفہ اور روحاء کی مساجد رہ گئی ہیں جنھیں وہاں کے باشندے پہچانتے ہیں۔
(فتح الباري: 738/1)
پہلی منزل:
رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تشریف لے جاتے تو ذوالحلیفہ آپ کی پہلی منزل ہوتی۔
ذوالحلیفہ،مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلے پر ہے۔
اسے بئر علی کہاجاتا ہے۔
اہل مدینہ کے لیے احرام حج کی میقات ہے۔
رسول اللہ ﷺ ذوالحلیفہ میں ایک کیکر کے درخت کے نیچے نزول فرماتے تھے۔
اب اس مقام پر مسج بن چکی ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ کےبیان کے مطابق ٹھیک اسی جگہ مسجد بنی ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی تھی، لیکن واپسی کے وقت نماز پڑھنے کی جگہ ایک دوسرا مقام تھا۔
حضرت ابن عمر ؓ کے بیان کے مطابق جہاں رسول اللہ ﷺ واپسی کے وقت نماز پڑھتے تھے وہاں ایک گہری وادی تھی جس کے اندر ریت کے تودے تھے۔
وہاں جومسجدیں ہیں وہ رسول اللہ ﷺ کی نماز کی جگہوں کے علاوہ ہیں۔
ایک مسجد پتھروں سے بنی ہوئی ہے اور دوسری ٹیلے پر بنی ہوئی ہے۔
جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی تھی وہ جگہ سنگریزوں سے چھپ گئی ہے ایک مقام مدینہ منورہ سے تقریباً چھ میل کے فاصلے پر ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے آخر شب قیام فرمایا تھا۔
وہاں مسجد معرس تعمیر ہوچکی ہے۔
اب صرف دو مساجد ہیں:
مسجد ذوالحلیفہ اور مسجد معرس جو محفوظ ہیں۔
باقی رہے نام اللہ کا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 484
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1532
1532. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے ذوالحلیفہ کے میدان میں اپنے اونٹ کو بٹھایا، پھر وہاں نماز پڑھی اور حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ بھی ایسا کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1532]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ باب عنوان کے بغیر ہے۔
گویا سابق عنوان کا تکملہ ہے، یعنی میقات کے پاس احرام کی نیت کرنے سے پہلے دو رکعت پڑھنا مستحب ہے۔
شارح ابن بطال کے ہاں اس مقام پر بایں الفاظ عنوان ہے:
(الصلاة بذي الحليفة)
”ذوالحلیفہ میں نماز پڑھنا“ ممکن ہے کہ یہ دو رکعت احرام کی ہوں یا فریضے کے طور پر ادا کی ہوں کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذوالحلیفہ میں نماز عصر کی دو رکعت پڑھی تھیں۔
(2)
احرام کی دو رکعتیں پڑھنے کے بارے میں اختلاف ہے۔
راجح بات یہ ہے کہ احرام کی خصوصی طور پر دو رکعتیں کسی حدیث سے صراحتا ثابت نہیں ہیں، البتہ جو شخص احرام سے پہلے وضو کرے تو وضو کی دو رکعت پڑھ کر احرام باندھے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1532
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1535
1535. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کو ایک خواب دکھایا گیا جبکہ آپ ذوالحلیفہ کی ایک وادی (عقیق) کے درمیان رات کا پڑاؤ کیے ہوئے تھے۔ آپ سے کہا گیا: آپ اس وقت ایک بابرکت میدان میں ہیں۔ راوی حدیث کہتا ہے کہ حضرت سالم بن عبد اللہ نے ہمیں اسی مقام پر ٹھہرایا۔ وہ اسی جگہ کو تلاش کرتے جہاں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اونٹ بٹھایا کرتے تھے اور وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے پڑاؤ کا قصد کرتے تھے، بطن وادی میں وہ مقام مسجد کی نچلی جانب ہے، یعنی پڑاؤ کرنے والوں اور راستے کے درمیان میں واقع ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1535]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں بھی وادی عقیق کے بابرکت ہونے کا ذکر ہے۔
اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ خواب اطلاع دی گئی اور انبیاء ؑ کے خواب وحی پر مبنی ہوتے ہیں۔
اس وادی میں قیام کرنا اور نمازیں ادا کرنا باعث اجروثواب ہے۔
اتباع سنت کا الگ ثواب ہو گا۔
(2)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس جگہ کو تلاش کر کے وہاں قیام کرتے تھے۔
سنن بیہقی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں درخت کے نیچے پڑاؤ کیا تھا اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس درخت کو پانی دیتے تھے تاکہ وہ خشک نہ ہونے پائے۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 245/5)
حضرت سالم بھی اپنے باپ حضرت عبداللہ ؓ کی اتباع میں اس جگہ کو تلاش کر کے وہاں قیام کرتے تھے۔
(فتح الباري: 495/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1535
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1799
1799. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوتے تو مسجد شجرہ میں نماز پڑھتے اور جب واپس تشریف لاتے تو ذوالحلیفہ کی وادی کے نشیب میں نماز ادا کرتے اور صبح تک وہاں رات بسر کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1799]
حدیث حاشیہ:
مسافر کے لیے ممانعت ہے کہ وہ اچانک رات کے وقت اپنے گھر آئے جیسا کہ آئندہ بیان ہو گا، اس کے علاوہ صبح و شام جب چاہے اپنے گھر آ سکتا ہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ واپس تشریف لاتے تو ذوالحلیفہ کی وادی میں رات بسر کرتے، صبح کے وقت اپنے گھر تشریف لاتے۔
اس میں شارع ؑنے بہت سی مصلحتوں کو پیش نظر رکھا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1799
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7345
7345. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپکو ایک خواب دکھایا گیا جبکہ آپ مقام ذوالحلیفہ میں محو استراحت تھے۔ آپ سے کہا گیا: بلاشبہ آپ بابرکت وادی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7345]
حدیث حاشیہ:
ذوالحلیفہ میں ایک مبارک وادی ہے جس کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث بیان کی ہیں ان سے مدینہ طیبہ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔
اس کی فضیلت میں کوئی شک نہیں وہاں وحی اترتی رہی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7345