سفیان بن عیینہ نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا) ہمیں عمرو بن دینا ر نے ابو معبد سے حدیث بیان کی (کہا) میں نے ابن عبا س رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ خطبہ دیتے ہوئے فر ما رہے تھے "کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ہر گز تنہا نہ ہو مگر یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔اور کوئی عورت سفر نہ کرے مگر یہ محرم کے ساتھ ہو۔ایک آدمی اٹھااور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری بیوی حج کے لیے نکلی ہے اور میرا نام فلاں فلاں غزوے میں لکھا جا چکا ہے آپ نے فرمایا: " جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرماتے ہوئے سنا: ”کوئی مرد، کسی عورت کے ساتھ، اس کے محرم کے بغیر تنہائی میں نہ رہے یا اکیلا نہ ہو اور عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔“ تو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر دریافت کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری بیوی حج پر جا رہی ہے، اور میرا نام فلاں فلاں لڑائی میں لکھ دیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ، اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3272
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوا اگر خاوند اپنی بیوی کے ساتھ حج پر جا سکتا ہو تو اسے ایسے فریضہ کو ترک کر دینا چاہیے جس کے لیے وقت متعین نہیں ہے یا اس کی جگہ کوئی اور شخص جا سکتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3272
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 587
´حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان` سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ میں یہ ارشاد فرماتے سنا کہ ” کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ہرگز اکیلا نہ ہو مگر اس کے ساتھ محرم ہو اور کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ “ پس ایک آدمی کھڑا ہوا تو اس نے کہا اے اللہ کے رسول! بیشک میری عورت حج کے لئے روانہ ہوئی اور میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں شامل ہونے کیلئے لکھا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جاؤ اپنی بیوی کے ہمراہ حج کرو۔ “(بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ [بلوغ المرام/حدیث: 587]
587 لغوی تشریح: «لَايَخُلُونَّ» یہ نون تاکید کے ساتھ «خلوة» سے نہی کا صیغہ ہے۔ «ذُو مَحْرَمٟ»”میم“”اور ”را“”پر زبر اور ان کے مابین ”حا“”ساکن ہے۔ اس سے عورت کے وہ قریبی مراد ہیں جن سے اس کا نکاح حرام ہے جیسے باپ، بیٹا بھائی وغیرہ۔ «اُكْتُتِبْتُ» باب افتعال سے متکلم مجہول کا صیغہ ہے، یعنی میرا نام مجاہدین کی فہرست میں شامل ہے اور مجھے فلاں غزوے کے لیے متعین کیا گیا ہے۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورت اپنے خاوند یا محرم کے بغیر حج نہیں کر سکتی اور عورت کے لیے یہ بھی فی الجملہ «مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا» کے حکم میں شامل ہے۔ یہ عورت کے لیے زائد شرط ہے، اگر یہ پوری ہو گی تو اس پر حج واجب ہے ورنہ اس پر حج کا فریضہ عائد ہی نہ ہو گا۔
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غیر محرم مرد اور عورت کے لیے تنہائی میں علیحدہ ہونا حرام ہے، بلکہ ایک حدیث میں ہے، جب بھی دونوں علیحدہ ہوں گے تیسرا ان کے ساتھ شیطان ہو گا۔ اس طرح عورت کے لیے محرم کے بغیر تنہا سفر کرنا بھی حرام ہے۔ بعض فقہاء نے بعض ادلہ کی بنا پر بوڑھی، قافلہ کی صورت میں یا ذی حشمت عورت کو اس کی اجازت دی ہے مگر حدیث کے صریح الفاظ اس بات کی نفی کرتے ہیں۔ ➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت پر حج فرض ہو تو نماز کی طرح اس کی اجازت خاوند سے ضروری نہیں، البتہ نفلی حج ہو تو عورت کو بہر نوع اجازت لے کر جانا چاہیے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 587
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5233
5233. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”کوئی مرد کسی اجنبی عورت سے تنہائی میں نہ ملے مگر جب قریبی رشتہ دار موجود ہوں۔“ ایک آدمی اٹھ کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! میری بیوی حج کے ارادے سے سفر پر جا رہی ہے جبکہ میرا نام فلاں فلاں جنگ میں شرکت کے لیے لکھ لیا گیا ہے آپ نے فرمایا: ”تم واپس چلے جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5233]
حدیث حاشیہ: امام احمد نے ظاہر حدیث پر عمل کر کے فرمایا کہ یہ حکم وجوباً ہے۔ اس لئے کہ جہاد اس کے بدل دوسرے مسلمان بھی کر سکتے ہیں مگر اس کی عورت کے ساتھ۔ سوائے محرم کے اور کوئی نہیں جا سکتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5233
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3006
3006. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے اور نہ کوئی عورت محرم کے بغیر سفر کرے۔“ یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں نے اپنا نام فلاں فلاں جہاد کے لیے لکھوادیا ہے لیکن میری اہلیہ حج کے لیے جا رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”جاؤ تم اپنی بیوی کے ہمراہ حج کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3006]
حدیث حاشیہ: کیونکہ اس کی عورت کے ساتھ دوسرا مرد نہیں جاسکتا اور جہاد میں اس کے بدل دوسرا شخص شریک ہوسکتا ہے تو آپ نے ضروری کام کو غیر ضروری پر مقدم رکھا۔ عورت اپنی شخصیت میں ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے وہ اپنے مال سے خود حج پر جاسکتی ہے۔ مگر خاوند کا ساتھ ہونا یا اس کی طرف سے کسی ذی محرم کا ساتھ بھیج دینا ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3006
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3006
3006. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے اور نہ کوئی عورت محرم کے بغیر سفر کرے۔“ یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں نے اپنا نام فلاں فلاں جہاد کے لیے لکھوادیا ہے لیکن میری اہلیہ حج کے لیے جا رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”جاؤ تم اپنی بیوی کے ہمراہ حج کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3006]
حدیث حاشیہ: 1۔ محرم وہ شخص ہے جس کے ساتھ ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہو۔ محرم بغیر کسی عورت کو سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص کا نام جہاد میں لکھا جائے اور اس کی بیوی نے حج کرنا ہو تو اسے اپنی بیوی کے ہمراہ جانا چاہیے۔ اس کے لیے جہاد میں جانا ضروری نہیں کیونکہ جہاد میں تو اس کا کوئی دوسرا قائم مقام ہو سکتا ہے لیکن بیوی کے ساتھ جانے کے لیے کوئی اجنبی قائم مقام نہیں ہو سکتا۔ 3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہم معاملات کو عارضی امور پر مقدم کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے ایک ضروری کام کو اہمیت دی ہے چنانچہ سفر حج اور سفر جہاد میں تعارض کی صورت میں آپ نے سفرحج کو ترجیح دی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3006
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5233
5233. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”کوئی مرد کسی اجنبی عورت سے تنہائی میں نہ ملے مگر جب قریبی رشتہ دار موجود ہوں۔“ ایک آدمی اٹھ کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! میری بیوی حج کے ارادے سے سفر پر جا رہی ہے جبکہ میرا نام فلاں فلاں جنگ میں شرکت کے لیے لکھ لیا گیا ہے آپ نے فرمایا: ”تم واپس چلے جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5233]
حدیث حاشیہ: (1) شوہر پر بیوی کی حفاظت و صیانت ضروری ہے، اس لیے حج کے لیے اس کا ساتھ جانا ضروری ہے۔ جہاد کا فریضہ دوسرے لوگ ادا کر سکتے ہیں اور اس کے قائم مقام ہو سکتے ہیں لیکن عورت کے ساتھ محرم کے علاوہ اور کوئی نہیں جا سکتا۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر عورت کے ساتھ محرم نہ ہو تو اس پر حج فرض نہیں ہے، خواہ وہ کتنی مال دار ہو۔ (عمدة القاري: 208/14)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5233