الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ
حج کے احکام و مسائل
55. باب تَفْضِيلِ الْحَلْقِ عَلَى التَّقْصِيرِ وَجَوَازِ التَّقْصِيرِ:
55. باب: سر منڈانا، بال کٹوانے سے بہتر ہے، اور بال کٹوانے کا جواز۔
حدیث نمبر: 3151
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيُّ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيل ، كِلَاهُمَا عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَلَقَ رَأْسَهُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ ".
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ر وایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کےموقع پر اپنے سر مبارک کے بال منڈائے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں سر منڈوایا تھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1304
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح البخاريحلق في حجة الوداع وأناس من أصحابه وقصر بعضهم
   صحيح البخاريحلق رأسه في حجة الوداع
   صحيح البخاريحلق رسول الله في حجته
   صحيح البخاريحلق النبي وطائفة من أصحابه وقصر بعضهم
   صحيح مسلمحلق رأسه في حجة الوداع
   صحيح مسلمحلق رسول الله وحلق طائفة من أصحابه وقصر بعضهم رحم الله المحلقين مرة أو مرتين ثم قال والمقصرين
   سنن أبي داودحلق رأسه في حجة الوداع

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3151 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3151  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سرمنڈانا بالاتفاق کٹوانے سے افضل ہے اور تحلیق وتقصیر حج کی عبادات میں سے ایک عبادت ہے۔
ائمہ اربعہ کا صحیح قول یہی ہے احرام کھولنے کے لیے حلق یا تقصیر واجب ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کے نزدیک اگراحرام کھولنے کے بعد حلق یا تقصیر کرے گا،
تو اس کو ایک جانور کی قربانی کرنا ہو گی۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ۔
اورابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قربانی کے آخری دن تک تحلیق یا تقصیر کر سکتا ہے اگر اس سے بھی تاخیر کرے گا تو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دم پڑے گا۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پورا سر منڈوانا فرض ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک چوتھائی سرمنڈوانا فرض ہے۔
اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تین بال منڈوانا فرض ہے۔
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہی ہمارے لیے اسوہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا سر منڈوایا تھا اور عمرہ میں بال بھی مکمل کٹوائے تھے اور عورتوں کے لیے سرمنڈوا ناجائز ہے۔
لیکن چند بالوں کو کٹوا لینا درست ہے اور حلق میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے سوا باقی ائمہ کے نزدیک سر کے دائیں حصہ کو پہلے منڈوانا مستحب ہے اگر کسی کے سر کے بال نہ ہوں تو اس کے سر پر استرا پھیر دیا جائے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3151   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1726  
1726. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حج کے موقع پر سر کو منڈوایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1726]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ سر منڈانا یا بال کتروانا بھی حج کا ایک کام ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1726   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1726  
1726. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حج کے موقع پر سر کو منڈوایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1726]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اس سال حج کا ارادہ کیا جب حجاج بن یوسف نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے خلاف لشکر کشی کی تھی۔
حضرت ابن عمر ؓ نے احرام باندھا، یہاں تک کہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو قربانی کی اور سر منڈوایا، پھر فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے حج کے موقع پر ایسے ہی کیا تھا۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2992(1230) (2)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے احرام کھولتے وقت سر منڈوانا ثابت کیا ہے جبکہ عنوان میں بال کتروانے کا بھی ذکر ہے، چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ نے سر منڈوائے تھے اور کچھ حضرات نے بال کتروائے تھے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4411)
لیکن عورتوں کے لیے بال منڈوانا جائز نہیں بلکہ وہ اپنی چٹیا کے چند ایک بال لے لیں، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عورتوں کے لیے بال منڈوانا نہیں بلکہ صرف ترشوانا ہے۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1984)
بہرحال حج یا عمرے کے اختتام پر مردوں کے لیے بال منڈوانا افضل اور کتروانا جائز ہے جیسا کہ آئندہ احادیث سے معلوم ہو گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1726   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4411  
4411. حضرت ابن عمر ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ اور آپ کے کچھ صحابہ کرام نے حجۃ الوداع کے موقع پر سر منڈوائے تھے اور کچھ ساتھیوں نے بال کٹوائے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4411]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارکان حج سے فراغت کے بعد اپنے سر مبارک کے بال منڈوائے اور جن اصحاب نے بال منڈوائے تھے ان کے لیے تین مرتبہ رحم وکرم کی دعا فرمائی اور جنھوں نے بال کٹوائے تھے ان کے لیے صرف ایک مر تبہ دعا کی۔
رسول اللہ ﷺ سے حج وعمرہ کے علاوہ کبھی سرکے بال منڈوانے کا ثبوت نہیں ملتا بلکہ آپ نے اپنے بالوں کو نہایت اعزاز و احترام سے رکھا۔
آپ کے بال کبھی کانوں تک اور کبھی گردن کے برابر ہوتے۔
جب دیر ہوجاتی تو آپ کے بال مینڈھوں کی صورت اختیار کرلیتے۔
چونکہ ان احادیث میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے انھیں ذکر کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4411