اسماعیل بن ابی خالد نے وبرہ سے روایت کی، کہا: میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک شخص آیا، اس نے پوچھا: کیا عرفات پہنچنے سے پہلے میں بیت اللہ کا طواف کرسکتا ہوں؟انھوں نے جواب دیا، ہاں (کرسکتے ہو) اس نے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہ نے تو کہا ہے کہ عرفہ پہنچنے سے قبل بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے جواب دیا: (سنو!) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حج فرمایا تو آپ نے میدان عرفات پہنچنے سے قبل بیت اللہ کا طواف کیاتھا۔ (اب سوچو) کہ تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ا پناؤ یہ زیادہ حق ہے؟یا یہ کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول؟اگر تم (ان کے بارے میں) سچ کہہ رہے ہو۔
وبرہ سے روایت ہے کہ میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، کہ ایک شخص نے آ کر پوچھا، کیا عرفات میں وقوف سے پہلے میرے لیے بیت اللہ کا طواف کرنا درست ہے، انہوں نے جواب دیا، ہاں۔ تو اس آدمی نے کہا، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، عرفات پہنچنے سے پہلے بیت اللہ کا طواف نہ کر، تو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا، اور عرفات جانے سے پہلے بیت اللہ کا طواف کیا، تو کیا تیرے لیے، اگر تیرا، دعویٰ ایمان سچا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو اختیار کرنا صحیح ہے یا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول۔