ابراہیم بن ابی موسیٰ نے حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ حج تمتع (کرنے) کافتویٰ دیاکرتے تھے، ایک شخص نے ان سے کہا: اپنےبعض فتووں میں زرا رک جاؤ، تم نہیں جانتے کہ اب امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے مناسک (حج) کے متعلق کیا نیا فرمان جاری کیا ہے۔بعد میں ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ (حکم صادر) کیا، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے (اس پرعمل) کیا، لیکن مجھے یہ بات ناگوارمعلوم ہوئی کہ لوگ عرفات کے پاس وادی عرفہ کے قریب اراک مقام میں (یا پیلو کے درختوں کی اوٹ میں) اپنی عورتوں کےساتھ لطف اندوز ہوتے رہیں۔پھر جب وہ (آٹھ ذوالحجہ یوم الترویہ کی) صبح حج کے لئے چلیں تو (غسل جنابت کریں اور) ان کے سروں سے پانی ٹپک رہا ہو
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حج تمتع کا فتویٰ دیا کرتا تھا، تو مجھے ایک آدمی نے کہا، اپنے اس فتویٰ سے باز رہو، کیونکہ تمہیں پتہ نہیں ہے، تیرے بعد امیر المؤمنین نے حج کے بارے میں کیا نیا حکم جاری کیا ہے، حتی کہ بعد میں ان کی ملاقات عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی، تو ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا، اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا، مجھے خوب معلوم ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے حج تمتع کیا ہے، لیکن میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ لوگ پیلو کے درخت کے نیچے اپنی عورتوں سے تعلق قائم کریں، پھر حج کرنے کے لیے چلیں، اور ان کے سروں سے پانی کے قطرات گر رہے ہوں (غسل جنابت کے سبب)۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2961
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرورت کے تحت اپنا احرام کس دوسری محترم شخصیت جس کی اقتدا کرنی ہو کے احرام پر معلق کیا جا سکتا ہے اور اس ابہام کی تعیین بعد میں اس کے ساتھ مل کر ہو سکتی ہے۔ 2۔ میقات سے احرام باندھنے کے بعد عمرہ کیے بغیر اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہاں کسی ضرورت یا مانع کی صورت میں احرام کی کیفیت میں تبدیلی جائز ہے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا احرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر معلق کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم قارن تھے کیونکہ ہدی ساتھ لانے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج سے فراغت سے پہلے احرام کھول نہیں سکتے تھے لیکن ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ہدی نہ تھی اس لی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حج تمتع کرنے کا حکم دیا وہ عمرہ کر کے حلال ہو گئے۔ 3۔ قرآن کی اصطلاح کی روسے حج تمتع اور حج قران دونوں (چونکہ ایک ہی سفر میں دونوں سرانجام دئیے جاتے ہیں) حج تمتع کہلاتے ہیں اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے خوب معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے حج تمتع کیا تھا لیکن وہ حج تمتع سے ایک مصلحت اور حکمت کے تحت روکتے تھے وہ اس کے جواز کے منکرنہ تھے تفصیل حدیث نمبر145 کے تحت گزر چکی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2961
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2736
´حج تمتع کا بیان۔` ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ تمتع کا فتویٰ دیتے تھے، تو ایک شخص نے ان سے کہا: آپ اپنے بعض فتاوے کو ملتوی رکھیں ۱؎ آپ کو امیر المؤمنین (عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ) نے اس کے بعد حج کے سلسلے میں جو نیا حکم جاری کیا ہے وہ معلوم نہیں، یہاں تک کہ میں ان سے ملا، اور میں نے ان سے پوچھا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے، لیکن میں یہ اچھا نہیں سمجھتا کہ لوگ «اراک» میں اپنی بیویوں سے ہمبستر ہوں، پھر وہ صبح [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2736]
اردو حاشہ: (1) اس روایت سے حقیقت حال واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے شرعاً جائز سمجھتے تھے مگر مذکورہ علت کی وجہ سے حج تمتع کو بہتر نہ سمجھا جو کہ آپ کی ایک اجتہادی غلطی تھی، تاہم درست یہی ہے کہ حج تمتع افضل ہے۔ واللہ أعلم (2)”نبی اکرمﷺ نے یہ کیا ہے۔“ یعنی آپ نے یہ حکم دیا تھا ورنہ آپ حلال نہ ہوئے تھے۔ یا لغوی معنیٰ میں آپ نے تمتع کیا ہے۔ اور اس معنیٰ میں تو حضرت عمر بھی تمتع (قران) کو ناپسند نہیں فرماتے تھے۔ (3)”پیلو کے درختوں کے نیچے“ ان دنوں وہاں یہ درخت عام ہوں گے، اس لیے اتفاقاً ان کا ذکر فرمایا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2736
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2979
´حج تمتع کا بیان۔` ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حج تمتع کے جواز کا فتویٰ دیتے تھے، ایک شخص نے ان سے کہا: آپ اپنے بعض فتوؤں سے دستبردار ہو جائیں کیونکہ آپ کے بعد امیر المؤمنین نے حج کے مسئلہ میں جو نئے احکام دئیے ہیں وہ آپ کو معلوم نہیں، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں عمر رضی اللہ عنہ سے ملا، اور ان سے پوچھا، تو آپ نے کہا: مجھے معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ایسا کیا ہے، لیکن مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ لوگ پیلو کے درخت کے نیچے عورتوں کے ساتھ رات گزاریں پھر حج کو جائیں، اور ان کے سروں سے پانی ٹپک رہا ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2979]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حج تمتع کو شرعاً ممنوع نہیں سمجھتے تھے۔
(2) رسول اللہ ﷺ نے حج قران ادا کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے تمتع کیا ہے۔ اس سے تمتع کا لغوی معنی مراد ہے۔ یعنی ایک سفر میں حج اور عمرہ دونوں کا فائدہ حاصل کرنا۔ یا یہ مطلب ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اکرم ﷺ کے حکم سے تمتع کیا۔ آپ کے حکم کو عمل کے برابر قرار دیتے ہوئے یہ جملہ فرمایا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2979