سفیان ثوری نے قیس (بن مسلم) سے، انھوں نے طارق بن شہاب سے، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ سے باہروادی) بطحاء میں سواریاں بٹھائے ہوئے (پڑاؤڈالے ہوئے) تھےتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ "تم نے کون سا تلبیہ پکارا ہے؟ (حج کا، عمرے کا، یا دونوں کا؟) "میں نے عرض کی: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم والا تلبیہ پکارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم قربانی ساتھ لائے ہو؟ میں نے کہا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کر کے احرام کھول ڈالو۔ پس میں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کی، پھر میں اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا (یہ ان کی محرم تھی) تو اس نے میرے سر میں کنگھی کی اور میرا سر دھو دیا۔ پھر میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت میں لوگوں کو یہی فتویٰ دینے لگا۔ (یعنی جو بغیر قربانی کے حج پر آئے تو وہ عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دے، پھر یوم الترویہ 8۔ ذوالحج کو دوبارہ حج کا احرام باندھے لیکن) ایک مرتبہ میں حج کے مقام پر کھڑا تھا کہ اچانک ایک شخص آیا، اس نے کہا کہ (تو تو احرام کھولنے کا فتویٰ دیتا ہے) آپ جانتے ہیں کہ امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قربانی کے متعلق نیا کام شروع کر دیا۔ (یعنی عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ عمرہ کر کے احرام کو کھولنا نہیں چاہئے) تو میں نے کہا اے لوگو! ہم نے جس کو اس مسئلے کا فتویٰ دیا ہے اس کو رک جانا چاہئے۔ کیونکہ امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آنے والے ہیں لہٰذا ان کی پیروی کرو۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے تو میں نے کہا، امیرالمؤمنین آپ نے قربانی کے متعلق یہ کیا نیا مسئلہ بتایا ہے؟ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر آپ اللہ کی کتاب قرآن پر عمل کریں تو قرآن کہتا ہے: ((وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلَّـہِ ۚ)) یعنی حج اور عمرہ کو اللہ کے لئے پورا کرو (یعنی احرام نہ کھولو) اور اگر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کریں تو ان کا اپنا طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے احرام اس وقت تک نہ کھولا جب تک قربانی نہ کر لی۔
حضرت ابو موسیٰ رضي الله تعاليٰ عنه بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ بطحائے مکہ میں قیام کیے ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”تو نے کس طرح احرام باندھا ہے؟“ میں نے جواب دیا، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کی طرح احرام باندھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا ہدی ساتھ لائے ہو؟“ میں نے کہا، نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو بیت اللہ، صفا اور مروہ کا طواف کرو، پھر حلال ہو جاؤ“ میں نے بیت اللہ، اور صفا اور مروہ کا طواف کیا، پھر اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے بالوں میں کنگھی کی اور میرا سر دھویا، میں لوگوں کو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے دور خلافت میں اس کے مطابق فتویٰ دیتا تھا، (کہ حج تمتع کرو) میں حج کے ایام میں کھڑا ہوا تھا کہ اچانک ایک آدمی میرے پاس آیا اور کہنے لگا، تمہیں معلوم نہیں ہے، امیر المومنین نے حج کے بارے میں کیا نیا حکم جاری فرمایا ہے، تو میں نے کہا، اے لوگو! جسے ہم نے کوئی فتویٰ دیا ہے، وہ ذرا توقف کرے (اس پر عمل سے رک جائے) یہ امیر المؤمنین آپ کے پاس پہنچ رہے ہیں، انہیں کی پیروی کرنا، جب وہ پہنچ گئے، میں نے کہا، اے امیر المؤمنین! یہ حج کے بارے میں آپ نے کیا نیا فرمان جاری کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا، اگر ہم کتاب اللہ پر عمل پیرا ہوں، تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (حج اور عمرہ دونوں کو (الگ الگ) اللہ کے لیے پورا کرو۔) اور اگر ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اختیار کریں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہدی کے نحر کرنے تک حلال نہیں ہوئے۔