عثمان بن عبد اللہ بن مو ہب نے عبد اللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لیے نکلے۔ہم بھی آپ کے ساتھ نکلے، کہا آپ نے اپنے صحابہ کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کچھ لوگوں کو جن میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ہٹا (کر ایک سمت بھیج دیا اور فرمایا "ساحل سمندر لے لے کے چلو حتی کہ مجھ سے آملو۔"کہا: انھوں نے ساھل سمندر کا را ستہ اختیار کیا۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کیا تو ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ سب نے احرا م باندھ لیا (بس) انھوں نے احرا م نہیں باندھا تھا۔اسی اثنا میں جب وہ چل رہے تھے انھوں نے زبیرے دیکھے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے ان پر حملہ کر دیا اور ان میں سے ایک مادہزیبرا کوگرا لیا۔وہ (لو گ) اترے اور اس کا گو شت تناول کیا۔کہا وہ (صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین) کہنے لگے۔ہم نے (تو شکار کا گو شت کھا لیا جبکہ ہم احرا م کی حا لت میں ہیں۔ (راوی نے) کہا: انھوں نے مادہ زیبرے کا بچا ہوا گو شت اٹھا لیا (اور چل پڑے) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے کہنے لگے۔ہم سب نے احرا م باند ھ لیا تھا جبکہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے ان پر حملہ کر دیا اور ان میں سے ایک مادہ زیبرا مار لیا۔ پس ہم اترے اور اس کا گو شت کھایا۔بعد میں ہم نے کہا: ہم احرا م باندھے ہو ئے ہیں اور شکار کا گو شت کھا رہے ہیں! پھر ہم نے اس کا باقی گو شت اٹھا یا (اور آگئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کیا تم میں سے کسی نے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے (شکار کرنے کو) کہا تھا۔؟یا کسی چیز سے اس (شکار) کی طرف اشارہ کیا تھا؟انھوں نے کہا نہیں آپ نے فرمایا: "اس کا باقی گو شت بھی تم کھا لو۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے قصد و ارادہ سے نکلے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کچھ ساتھیوں کو جن میں ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے، ایک طرف بھیج دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ چلو حتی کہ مجھ سے آ ملو۔ ”انہوں نے ساحل سمندر کا راستہ اختیار کیا، جب وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھرے تو ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا سب نے احرام باندھ لیا، انہوں نے احرام نہ باندھا، چلتے چلتے انہوں نے جنگلی گدھے دیکھے، ابو قتادہ رضی اللہ تالیٰ عنہ نے ان پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک گدھی کی کونچیں کاٹ ڈالیں، ساتھیوں نے پڑاؤ کیا اور اس کا گوشت کھا لیا اور کہنے لگے، ہم نے محرم ہونے کے باوجود گوشت کھا لیا، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تو انہوں نے گدھی کا باقی ماندہ گوشت اٹھا لیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو کہنے لگے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم محرم تھے اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہ محرم نہ تھے اور ہم نے جنگلی گدھے دیکھے، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے ان پر حملہ کر دیا ارو ان میں سے ایک گدھے کا شکار کر لیا، ہم نے پڑاؤ کیا اور اس میں سے گوشت کھا لیا، پھر ہم نے کہا، ہم شکار کا گوشت کھا رہے ہیں، حالانکہ ہم محرم ہیں تو ہم نے اس کا بقایا گوشت ساتھ لے لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم میں سے کسی نے اس کو مشورہ دیا تھا یا کسی قسم کا اس کی طرف اشارہ کیا تھا؟“ انہوں نے جواب دیا، نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا باقی ماندہ گوشت بھی کھا لو۔“
رأوا حمارا وحشيا قبل أن يراه فلما رأوه تركوه حتى رآه أبو قتادة فركب فرسا له يقال له الجرادة فسألهم أن يناولوه سوطه فأبوا فتناوله فحمل فعقره ثم أكل فأكلوا فندموا فلما أدركوه قال هل معكم منه شيء ق
رأى حمارا وحشيا فاستوى على فرسه فسأل أصحابه أن يناولوه سوطه فأبوا فسألهم رمحه فأبوا فأخذه ثم شد على الحمار فقتله فأكل منه بعض أصحاب النبي وأبى بعض فلما أدركوا رسول الله سألوه عن ذلك قال إنما هي طعمة أطعمكموها الله
نظرت فإذا حمار وحش فأسرجت فرسي وأخذت رمحي ثم ركبت فسقط مني سوطي فقلت لأصحابي وكانوا محرمين ناولوني السوط فقالوا والله لا نعينك عليه بشيء فنزلت فتناولته ثم ركبت فأدركت الحمار من خلفه وهو وراء أكمة فطعنته برمحي فعقرته فأتيت به أصحابي فقال بعضهم كلوه وقال بع
خذوا ساحل البحر حتى تلقوني قال فأخذوا ساحل البحر فلما انصرفوا قبل رسول الله أحرموا كلهم إلا أبا قتادة فإنه لم يحرم فبينما هم يسيرون إذ رأوا حمر وحش فحمل عليها أبو قتادة فعقر منها أتانا فنزلوا فأكلوا من لحمها قال فقالوا أكلنا لحما