سفیان بن عینیہ، عمرو بن حارث، سفیان ثوری، اوزاعی، اور محمد بن اسحاق سب نے یحییٰ بن سعید سے، انھوں نے عمرہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابو معاویہ کی روایت کے ہم معنی روایت بیا ن کی۔ ابن عینیہ نے عمرو بن حارث اورابن اسحاق کی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا ذکر ہے کہ انھوں نے اعتکاف کے لیے خیمے لگائے تھے۔
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ سے یہی روایت نقل کرتے ہیں جو مذکورہ بالا ابو معاویہ کی حدیث کے ہم معنی ہے اور ابن عیینہ، عمرو بن حارث اور ابن اسحاق کی روایت میں اعتکاف کے لیے خیمے لگوانے والی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھم کے نام عائشہ، حفصہ اور زینب رضی اللہ عنھن ذکر کیے گئے ہیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2786
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ اس حدیث سےثابت ہوتا ہے کہ ایک کام دیکھا دیکھی کیا جائے تواس میں محض اطاعت ونیکی کی بجائے ریس اور غیرت کا احتمال ہے، عورت مسجد میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہے اور مرد کسی سبب سے اسے اعتکاف سے روک سکتا ہے اور اعتکاف کی قضائی رمضان کے سوا دوسرے مہینہ میں بھی ہو سکتی ہے۔ 2۔ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ۔ ثوری رحمۃ اللہ علیہ۔ اور لیث رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایک اعتکاف گاہ میں صبح کی نماز کے بعد داخل ہو گا گویا اعتکاف کا آغاز صبح سے کرے گا، لیکن ائمہ اربعہ کے نزدیک مسجد میں بیس رمضان کو سورج کے غروب سے پہلے پہلے داخل ہو گا اوراعتکاف گاہ میں اکیس کی صبح کو داخل ہو گا کیونکہ آخری عشرہ کی پہلی رات اکیسویں ہے، جس میں لیلۃ القدر کا احتمال ہے اور اس کے بغیر عشرہ ناقص ہو گا۔ قاضی ابو یعلیٰ کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیس رمضان کی صبح کو اعتکاف گاہ میں داخل ہوتے تھے، علامہ سندھی نے اس کو ترجیح دی ہے، کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: (إذا أراد أن يعتكف) جب آپ اعتکاف کی نیت کرتے تو صبح کی نماز پڑھ کراعتکاف گاہ میں داخل ہو جاتے۔