یحییٰ بن یحییٰ، مالک، عبدربہ، بن سعید، ابی بکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اورحضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات فرماتی ہیں۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں جماع کی وجہ سے نہ کہ احتلام کی وجہ سے جنبی حالت میں صبح کرتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں جماع سے نہ کہ احتلام سے صبح جنبی اٹھتے پھر روزہ رکھ لیتے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2388
´رمضان میں جنبی ہونے کی حالت میں صبح کرنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت جنابت میں صبح کرتے۔ عبداللہ اذرمی کی روایت میں ہے: ایسا رمضان میں احتلام سے نہیں بلکہ جماع سے ہوتا تھا، پھر آپ روزہ سے رہتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: کتنی کم تر ہے اس شخص کی بات جو یہ یعنی «يصبح جنبا في رمضان» کہتا ہے، حدیث تو (جو کہ بہت سے طرق سے مروی ہے) یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنبی ہو کر صبح کرتے تھے حالانکہ آپ روزے سے ہوتے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2388]
فوائد ومسائل: فجر صادق کی ابتدائی ساعات میں انسان اگر جنابت کی حالت میں روزے کی ابتدا کرے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے کہ بروقت غسل کر کے نماز میں شریک ہو جائے مگر بلا عذر شرعی اپنی اس کیفیت کو طول دینا ناجائز اور روزے میں عیب ہے۔ مرد اور عورت دونوں کے لیے یہی مسئلہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2388
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 779
´جنبی کو فجر پا لے اور وہ روزہ رکھنا چاہتا ہو تو کیا حکم ہے۔` ام المؤمنین عائشہ اور ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر پا لیتی اور اپنی بیویوں سے صحبت کی وجہ سے حالت جنابت میں ہوتے پھر آپ غسل فرماتے اور روزہ رکھتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 779]
اردو حاشہ: 1؎: ام المومنین عائشہ اور ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث ابو ہریرہ کی حدیث ((مَنْ أَصْبَحَ جُنُبََا فَلَا صَوْمَ لَه)) کے معارض ہے، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ عائشہ اور ام سلمہ کی حدیث کو ابو ہریرہ کی حدیث پر ترجیح حاصل ہے کیونکہ یہ دونوں نبی اکرم ﷺ کی بیویوں میں سے ہیں اور بیویاں اپنے شوہروں کے حالات سے زیادہ واقفیت رکھتی ہیں، دوسرے ابو ہریرہ تنہا ہیں اور یہ دو ہیں اور دو کی روایت کو اکیلے کی روایت پر ترجیح دی جائے گی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 779
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2589
ابوبکر بن عبدالرحمان بیان کرتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی روایات کے بیان میں، میں نے یہ روایت بھی سنی کہ جس کو فجر جنابت کی حالت میں پا لے وہ روزہ نہ رکھے، میں نے یہ بات اپنے باپ عبدالرحمان بن حارث کو بتائی انہوں نے اس کا انکار کیا، تو عبدالرحمان چلے اور میں بھی ساتھ تھا حتی کہ ہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عبدالرحمٰن نے ان دونوں سے یہ مسئلہ پوچھا: تو دونوں نے فرمایا کہ رسول... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2589]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ایک انسان بیوی سے تعلقات قائم کرتا ہے لیکن غسل طلوع فجر کے بعد نماز کے لیے کرتا ہے اور روزہ جنابت کی حالت میں ہی رکھ لیتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں اور تنگی نہیں ہے جمہور آئمہ اربعہ کا موقف یہی ہے۔ آیت مبارکہ: ﴿فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ﴾ اور احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہوتی ہے اور حضرت فضل کی حدیث کا تعلق یا تو ابتدائی دور سے ہے جبکہ رات کو تعلقات زن و شوہردرست نہ تھے بعد میں تعلقات کی اجازت مل گئی تو اس حالت میں روزہ رکھنا بھی درست ٹھہرایا، اس کا یہ مقصد ہے کہ بہتر اور افضل صورت یہی ہے کہ روزہ رکھنے سے پہلے غسل کر لے تاکہ غفلت وکاہلی دور ہو جائے اور آسانی کے ساتھ جامعت کے ساتھ مل سکے یا یہ مقصد ہو کہ وہ طلوع فجر تک تعلقات میں مشغول رہا طلوع فجر کے بعد فارغ ہوا جبکہ روزہ کا وقت نکل رہا تھا اور بعض حضرات کا خیال ہے کہ حدیث فضل کا تعلق اس انسان سے ہے جس نے عمداً غسل نہیں کیا حالانکہ وہ غسل کر سکتا تھا اگر اٹھا ہی دیر سے ہے وقت غسل نہیں ہے۔ تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ اور بعض حضرات کے نزدیک نفل روزہ درست ہے اور فرض درست نہیں ہے بعض کے نزدیک دونوں میں درست نہیں بعض کے نزدیک روزہ رکھے گا۔ لیکن قضائی دینی ہو گی بعض کے نزدیک فرض کی صورت میں قضائی ہے نفل کی صورت میں نہیں اور صحیح موقف جمہور کا ہے کیونکہ قرآن و حدیث دونوں اس کے مؤید ہیں۔