یحییٰ بن یحییٰ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم وصال سے منع فرمایا ہے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا کہ آپ تو وصال کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں کیونکہ مجھے تو کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال سے منع فرمایا: صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: آپ وصال کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمھاری مثل نہیں ہوں مجھے کھلایا پلایا جاتا ہے۔“
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 259
´وصال کے روزے کی ممانعت ہے` «. . . 209- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الوصال، فقالوا: يا رسول الله فإنك تواصل، فقال: ”إني لست كهيئتكم، إني أطعم وأسقي.“ . . .» ”. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال کے روزے رکھنے سے منع فرمایا تو لوگوں نے پوچھا: یا رسو ل اللہ! آپ تو خود وصال کے روزے رکھتے ہیں؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے جیسا نہیں ہوں، مجھے (وصال کے روزوں کے دوران میں) کھلایا اور پلایا جاتا ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 259]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1962، ومسلم 1102، من حديث مالك به] تفقه: ➊ وصال کے روزے سے مراد یہ ہے کہ شام کو افطار کرنے کے بعد سحری نہ کھائی جائے بلکہ اگلے دن شام تک روزہ رکھ کر غروب آفتاب کے ساتھ افطار کیا جائے۔ اس طرح یہ چوبیس گھنٹے کا روزہ بن جاتا ہے۔ ➋ امت پر شفقت اور رحمت کی وجہ سے وصال کا روزہ ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ ➌ بشر ہونے کے باوجود امتی اور نبی برابر نہیں ہیں۔ ➍ روزے کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وصال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر کھلایا پلایا جاتا تھا جبکہ اُمتیوں کے لئے ایسا نہیں ہے۔ ➎ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹوں پر (بھوک کی تکلیف سے بچنے کے لئے) ایک ایک پتھر بندھا ہوا دکھایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو پتھر (بندھے ہوئے) دکھائے۔ [سنن الترمذي: 2371 وسنده حسن لذاته] ◈ یہ روایت حسن لذاتہ یعنی حجت ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کی طرف سے اپنے رسول کو کھلانا پلانا وصال کے روزوں کے ساتھ خاص ہے ورنہ آپ دوسرے ایام میں بھوک بھی برداشت کرتے تھے۔ [نيز ديكهئے ح344]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 209
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2360
´صوم وصال (مسلسل روزے رکھنے) کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم وصال (مسلسل روزے رکھنے) سے منع فرمایا ہے، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ تو مسلسل روزے رکھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہاری طرح نہیں ہوں، مجھے تو کھلایا پلایا جاتا ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2360]
فوائد ومسائل: (1) بغیر افطار کیے کئی کئی روز مسلسل روزے رکھنا وصال کہلاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس طرح روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
(2) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جو خصوصیت بیان فرمائی ہے اس میں امت میں سے کوئی بھی آپ کا شریک و سہیم نہیں ہے۔ جو زاہد اور صوفیا قسم کے لوگ بغیر افطار مسلسل روزے رکھتے ہیں، ان کا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے سراسر خلاف ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2360
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1922
1922. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک دفعہ مسلسل روزے رکھے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی آپ کے ہمراہ ”صوم وصال“ کا اہتمام کیا۔ جب انھیں سخت تکلیف ہوئی تو آپ نے انھیں منع فرمادیا۔ انھوں نے عرض کیا: آپ بھی توپے درپے روزے رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ مجھے تو برابر کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1922]
حدیث حاشیہ: صوم وصال متواتر کئی دن سحری و افطار کئے بغیر روزہ رکھنا اور رکھے چلے جانا، بعض دفعہ آنحضرت ﷺ ایسا روزہ رکھا کرتے تھے مگر صحابہ ؓ کو آپ ﷺ نے مشقت کے پیش نظر ایسے روزے سے منع فرمایا بلکہ سحری کھانے کا حکم دیا تاکہ دن میں اس سے قوت حاصل ہو۔ امام بخاری کا منشاء یہ ہے کہ سحری کھانا سنت ہے، مستحب ہے مگر واجب نہیں ہے کیوں کہ صوم وصال میں صحابہ ؓ نے بھی بہرحال سحری کو ترک کر دیا تھا، لہٰذاباب کا مقصد ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1922
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1922
1922. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک دفعہ مسلسل روزے رکھے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی آپ کے ہمراہ ”صوم وصال“ کا اہتمام کیا۔ جب انھیں سخت تکلیف ہوئی تو آپ نے انھیں منع فرمادیا۔ انھوں نے عرض کیا: آپ بھی توپے درپے روزے رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ مجھے تو برابر کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1922]
حدیث حاشیہ: (1) صوم وصال، متواتر کئی دن سحری و افطاری کے بغیر روزہ رکھنے کو کہتے ہیں۔ بعض اوقات رسول اللہ ﷺ نے اس انداز سے روزے رکھے ہیں لیکن مشقت کے پیش نظر صحابۂ کرام ؓ کو اس سے منع فرمایا بلکہ سحری کھانے کا حکم دیا تاکہ اس سے قوت پیدا ہو۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ سحری کھانا مستحب ہے مگر واجب نہیں کیونکہ صوم وصال میں صحابۂ کرام ؓ نے سحری کو ترک کیا تھا۔ اس سے امام بخاری نے عنوان ثابت کیا ہے۔ (3) ابن منیر نے امام بخاری ؒ کا عنوان اس طرح ثابت کیا ہے کہ وصال کی نہی تحریم کے لیے نہیں بلکہ بطور خیرخواہی ہے اور جب صوم وصال کی نہی کراہت کے لیے ہے تو اس کی ضد میں استحباب ہو گا کیونکہ اگر سحری واجب ہوتی تو وصال ثابت نہ ہوتا، ایسے حالات میں وصال ترک سحور کو مستلزم ہے۔ (فتح الباري: 179/4)(4) کھانے پینے سے مراد روحانی غذا ہے کہ آپ کو بھوک کا احساس نہیں ہوتا تھا یا پھر اللہ کھلا دیتا ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہے۔ بہرحال اس سے دنیا کا کھانا مراد نہیں ہے۔ (عمدةالقاري: 68/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1922