الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ
زکاۃ کے احکام و مسائل
14. باب فَضْلِ النَّفَقَةِ وَالصَّدَقَةِ عَلَى الأَقْرَبِينَ وَالزَّوْجِ وَالأَوْلاَدِ وَالْوَالِدَيْنِ وَلَوْ كَانُوا مُشْرِكِينَ:
14. باب: والدین اور دیگر اقرباء پر خرچ کرنے کی فضیلت اگرچہ وہ مشرک ہوں۔
حدیث نمبر: 2325
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ إِذْ عَاهَدَهُمْ، فَاسْتَفْتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُ أُمِّي؟، قَالَ: " نَعَمْ صِلِي أُمَّكِ ".
ہشام کے ایک اور شاگرد ابو اسامہ نے اسی سند کے ساتھ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا قریش کے ساتھ معاہدے کے زمانے میں، جب آپ نے ان سے معاہدہ صلح کیا تھا، میری والدہ آئیں، وہ مشرک تھیں تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری والدہ میرے پاس آئی ہیں اور (مجھ سے صلہ رحمی کی) اُمید رکھتی ہیں تو کیا میں اپنی ماں سے صلہ رحمی کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں، اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔"
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے قریش کے ساتھ معاہدہ صلح کے دور میں میری والدہ آئی اور وہ مشرکہ تھی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا میں نے کہا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ماں میرے پاس آئی ہے اور وہ (صدقہ کی) خواہش مند ہے تو کیا میں اپنی ماں سے صلہ رحمی کروں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1003
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح البخاريوهي راغبة أفأصل أمي قال نعم صلي أمك
   صحيح البخاريأتتني أمي راغبة في عهد النبي فسألت النبي آصلها قال نعم
   صحيح البخاريأمي قدمت علي وهي راغبة أفأصلها قال نعم صليها
   صحيح مسلمأمي قدمت علي وهي راغبة أو راهبة أفأصلها قال نعم
   صحيح مسلمقدمت علي أمي وهي راغبة أفأصل أمي قال نعم صلي أمك
   سنن أبي داودصلي أمك
   مسندالحميدينعم

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2325 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2325  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر کسی انسان کے ماں باپ کافر ہوں تو پھر بھی وہ احترام اور صلہ رحمی کے حقدار ہیں اور ان کے بچوں پر ان کے کمزور ضعیف ہونے کی صورت میں یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کے نان و نفقہ کا اہتمام کریں اور بچیاں بھی ان سے صلہ رحمی کریں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2325   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1668  
´ذمی کو صدقہ دینے کا بیان۔`
اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس میری ماں آئیں جو قریش کے دین کی طرف مائل اور اسلام سے بیزار اور مشرکہ تھیں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری ماں میرے پاس آئی ہیں اور وہ اسلام سے بیزار اور مشرکہ ہیں، کیا میں ان سے صلہ رحمی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1668]
1668. اردو حاشیہ: رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک سے پیش آنا اسلامی تعلیم کا لازمی حصہ اور مسلمانوں کا شعار ہے مگر للہ فی اللہ گہری اور رازدارانہ محبت مسلمانوں ہی سے خاص ہے۔ کافر لوگوں یا کافر عزیزوں کو فرض زکواۃ یا واجب صدقات نہیں دیئے جاسکتے۔الا یہ کہ مئولفۃ القلوب کے ضمن میں آتے ہوں۔ نفل صدقات دینے میں کوئی حرج نہیں۔خاص طور پر والدین کا تو حق ہے۔ کہ اولاد ان پر خرچ کرے۔ کافر ہونا ان کا اپنا معاملہ ہے۔ جو اللہ کے ساتھ ہے سورۃ لقمان میں ہے <قرآن>۔(وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا)(لقمان۔15) اگر وہ تجھ سے کوشش کریں کہ تو میرا شریک ٹھرائے ایسی چیز کو جس کا تجھے علم نہیں۔ تو ان کا کہا مت مان اور دنیا کے امور میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کر
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1668   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:320  
320- سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: قریش کے عہد میں میری والدہ (جو مسلمان نہیں ہوئی تھیں) میرے پاس (کچھ مالی امداد) کے لئے تشریف لائیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: کیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کروں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: جی ہاں۔ سفیان کہتے ہیں: تو اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‏‏‏‏(60-الممتحنة:8) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:320]
فائدہ:
اس حدیث میں کافر عزیز و اقارب کے ساتھ صلۂ رحمی کا درس دیا گیا ہے، اسی طرح ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ایک ریشمی حلہ عطا فرمایا، انہوں نے وہ اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا جو کہ مکہ میں رہتا تھا۔ (صحیح البخاری: 5981) اس آیت میں ان کفار کا تذکرہ ہے جو کافر تو تھے لیکن غیر جانبدار بن کر رہے۔ مسلمانوں کو کسی قسم کی تکلیف نہیں دیتے تھے، اس طرح کے لوگ مکہ کے اردگرد کے کچھ قبائل تھے، جیسے بنو خزاعہ اور بنو حارث وغیرہ، جو مسلمانوں کے حلیف تھے، یا کفار قریش کے مقابلے میں مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے تھے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 320   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3183  
3183. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ قریش نے جس وقت رسول اللہ ﷺ سے جنگ بندی کی صلح کررکھی تھی، اس مدت میں میری والدہ ا پنے باپ کے ہمراہ میرے ہاں مدینہ طیبہ آئی جبکہ وہ اس وقت مشرکین سے تھی۔ حضرت اسماء ؓ نے اس کے متعلق مسئلہ دریافت کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میری والدہ میرے پاس آئی ہے اور وہ مجھ سے (کچھ مال لینے کی) رغبت رکھتی ہے تو کیا میں ایسے حالات میں اس سے صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3183]
حدیث حاشیہ:
باب سے اس حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ ان کی والدہ بھی قریش کے کافروں میں شامل تھیں اور چونکہ ان سے اور آنحضرت ﷺ سے صلح کی تھی اس لیے رسول کریم ﷺ نے حضرت اسماءؓ کو اجازت دی کہ اپنی والدہ سے اچھا سلوک کریں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3183   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5978  
5978. سیدہ اسماء بنت ابی بکر‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے عہد مبارک میں میری والدہ میرے پاس آئی اور وہ مجھ سے صلہ رحمی کی امید رکھتی تھی میں نے نبی ﷺ سے اس کے ساتھ صلہ رحمی کی بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا: ہاں(صلہ رحمی کرو) ابن عینیہ نے کہا: اللہ تعالٰی نے ان کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی: اللہ تعالٰی تمہیں ان لوگوں سے حسن سلوک کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کی وجہ سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5978]
حدیث حاشیہ:
یہ قرآن پاک کی وہ زبر دست آیت کریمہ ہے۔
جو مسلمانوں اورغیر مسلمانوں کے باہمی تعلقات کو جوڑتی ہے اور باہمی جھگڑوں کو کالعدم قرار دیتی ہے۔
مسلمانوں کی جنگ جارحانہ نہیں بلکہ صرف مدافعانہ ہوتی ہے۔
صاف ارشاد باری ہے۔
{وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا} (الأنفال: 61)
اگر تمہاے مخالفین تم سے بجائے جنگ کے صلح کے خواہاں ہوں تو تم بھی فوراً صلح کے لیے جھک جاؤ کیونکہ اللہ کے ہاں جنگ بہر حال نا پسند ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5978   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2620  
2620. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں میری مشرک ماں میرے پاس آئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ میری ماں میرے پاس کچھ تعاون کی امید سے آئی ہے۔ کیا میں اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تم اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2620]
حدیث حاشیہ:
اس کا بیٹا حارث بن مدرکہ بھی ساتھ آیا تھا۔
مگر اس کا نام صحابہ میں نہیں ہے۔
شاید وہ کفر ہی پر مرا۔
یہ قتیلہ بنت عبدالعزیٰ حضرت ابوبکر ؓ کی بیوی تھی۔
حضرت اسماء ؓ اسی کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔
حضرت ابوبکر ؓ نے جاہلیت کے زمانے میں طلاق دے دی تھی اور وہ اب بھی غیرمسلمہ تھی جو مدینہ میں اپنی بیٹی اسماء ؓ کو دیکھنے آئی اور میوے اور گھی وغیرہ کے تحفے ساتھ لائی۔
حضرت اسماء نے ان کے بارے میں رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا۔
جس پر آنحضرت ﷺ نے انہیں اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی اور احسن برتاؤ کا حکم دیا تھا۔
اس سے اسلام کی اس روش پر روشنی پڑتی ہے جو وہ غیرمسلم مردوں عورتوں کے ساتھ برتاؤ پیش کرتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2620   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2620  
2620. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں میری مشرک ماں میرے پاس آئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ میری ماں میرے پاس کچھ تعاون کی امید سے آئی ہے۔ کیا میں اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تم اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2620]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت اسماء ٍ کی ماں، سیدنا ابوبکر ؓ کی بیوی تھی جسے آپ نے زمانۂ جاہلیت میں طلاق دے دی تھی۔
حضرت اسماء اسی کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔
صلح حدیبیہ کے بعد جب مدینہ اور مکہ کے درمیان آمدورفت کا راستہ کھل گیا تو ماں، بیٹی سے ملنے کے لیے مدیبہ طیبہ آئی اور اپنے ساتھ کچھ تحائف بھی لائی۔
حضرت اسماء ؓ نے اس کے متعلق دریافت کیا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا حکم دیا۔
(2)
اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اپنے کافر والدین کی خدمت کرنا اور بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کی مدد کرنا جائز ہے جبکہ وہ دشمن اسلام نہ ہوں۔
مخالفینِ اسلام کو دین اسلام کی اس روش پر غور کرنا چاہیے۔
(فتح الباري: 288/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2620   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3183  
3183. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ قریش نے جس وقت رسول اللہ ﷺ سے جنگ بندی کی صلح کررکھی تھی، اس مدت میں میری والدہ ا پنے باپ کے ہمراہ میرے ہاں مدینہ طیبہ آئی جبکہ وہ اس وقت مشرکین سے تھی۔ حضرت اسماء ؓ نے اس کے متعلق مسئلہ دریافت کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میری والدہ میرے پاس آئی ہے اور وہ مجھ سے (کچھ مال لینے کی) رغبت رکھتی ہے تو کیا میں ایسے حالات میں اس سے صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3183]
حدیث حاشیہ:

سیدہ اسماء ؓ اور حضرت عائشہ ؓ دونوں پدری بہنیں ہیں۔
ان کے والد گرامی حضرت ابوبکرصدیق ؓ ہیں جبکہ ان کی مائیں الگ الگ ہیں۔
حضرت اسماء کی والدہ کفارقریش میں شامل تھیں اور ان سے رسول اللہ ﷺ کی ان دنوں صلح تھی، اس لیے آپ نے حضرت اسماء ؓ کو اپنی والدہ سے اچھا سلوک کرنے کی اجازت دی۔

عنوان سابق سے اس حدیث کا اس طرح تعلق ہے کہ کفار سے ایفائے عہد کا تقاضا ہے کہ قریبی رشتہ داروں سے بہتر سلوک کیا جائے اگروہ وہ صلہ رحمی کرنے والے کے دین کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔

ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عہد شکنی مذموم ہے اور اس کے مقابلے میں ایفائے عہد قابل تعریف اور پسندیدہ خصلت ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3183   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5978  
5978. سیدہ اسماء بنت ابی بکر‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے عہد مبارک میں میری والدہ میرے پاس آئی اور وہ مجھ سے صلہ رحمی کی امید رکھتی تھی میں نے نبی ﷺ سے اس کے ساتھ صلہ رحمی کی بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا: ہاں(صلہ رحمی کرو) ابن عینیہ نے کہا: اللہ تعالٰی نے ان کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی: اللہ تعالٰی تمہیں ان لوگوں سے حسن سلوک کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کی وجہ سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5978]
حدیث حاشیہ:
(1)
والدین کے اولاد پر دوحق ہیں:
ایک اطاعت اور دوسرا حسن سلوک۔
اگر والدین شرک یا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر اولاد کو مجبور کریں تو ان کی اطاعت کا حق ختم ہو جاتا ہے لیکن حسن سلوک کا حق پھر بھی برقرار رہتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک کرے،جس کا تجھے علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مانو،البتہ دنیاوی معاملات میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہو۔
(لقمان31: 15) (2)
حدیث میں ذکر کردہ آیت کریمہ غیر حربی کفار سے تعلقات رکھنے کے متعلق ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کہ اگر کافر، مسلمانوں کے ساتھ برسرپیکار نہیں۔
تو اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
بہرحال والدین اگر مشرک ہوں تو صلہ رحمی کا حق ختم نہیں ہوتا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5978