خالد نے ابو عثمان سےنقل کیا کہ جب زیاد کی نسبت (ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی طرف ہونے) کا دعویٰ کیا گیا تھا تو میں جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ سےملا اور پوچھا: یہ تم لوگوں نے کیا کیا؟ میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میرے دونوں کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ” جس نے اسلام کی حالت میں اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کو باپ بنانے کادعویٰ کیا اور وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔“ اس پر حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: خود میں نے بھی رسول اللہ رضی اللہ عنہ سےیہی سنا ہے۔
ابو عثمانؒ بیان کرتے ہیں کہ جب زیاد کی نسبت ابوسفیان ؓ کی طرف کی گئی یا (معاویہ ؓ نے) اس کے بھائی ہونے کا دعویٰ کیا تو میں ابو بکرہ ؓ کو ملا اور اس سے پوچھا: تم نے یہ کیا کیا؟ میں نے تو سعد بن ابی وقاص ؓ سے سنا وہ کہہ رہے تھے میں نے اپنے کانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپؐ فرما رہے تھے: ”جس نے اسلام میں اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کے باپ ہونے کا یہ جانتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ میرا باپ نہیں ہے، اس کا جنّت میں داخلہ نہیں ہے تو ابو بکرہ ؓ نے کہا: خود میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سنا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 63
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى المغازي، باب: غزوة الطائف برقم (53) وفي الفرائض باب: من ادعى الى غير ابيه برقم (6385) وابوداؤد فى ((سننه)) فى الادب، باب: فى الرجل ينتمى الى غير مواليه برقم (5113) وابن ماجه فى ((سننه)) فى الحدود، باب: من ادعى الى غير ابيه او تولى غير مواليه برقم (2610) - انظر ((التحفة)) برقم (3902)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 219
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث میں اس واقعہ کیطرف اشارہ ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے ابوبکرہ ؓ کے ماں کی طرف سے بھائی زیاد کو اپنا بھائی قرار دیا تھا، دونوں کی ماں سمیہ نامی لونڈی تھی۔ واقعہ کی اصل حقیقت یہ ہے کہ جاہلیت کے دور میں نکاح کی مختلف صورتیں تھیں، جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کی بخاری میں روایت ہے، ان میں سے ایک صورت یہ تھی کہ بہت سے لوگ کسی عورت سے تعلقات قائم کرتے اور جب وہ بچہ جنتی تو ان سب کو بلا لیتی اور اپنے بچہ کو ان میں سے کسی ایک کا قرار د دیتی اور اس کو اس کی بات تسلیم کرنا پڑتی، وہ اس کے باپ ہونے کا انکار نہیں کر سکتا تھا، اور وہ اس کا بیٹا تصورہوتا تھا۔ جاہلیت کے دور میں ابو سفیان ؓ کسی کام سے طائف گئے، وہاں سمیہ سے تعلقات قائم کیے، جب بچہ پیدا ہوا تو سمیہ نے اس کو ابو سفیان ؓ کا بیٹا قرار دیا، ابو سفیان ؓ کے لیے اس کے اقرار کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، اس نے مان لیا۔ چونکہ یہ معاملہ طائف میں پیش آیا تھا، اس لیے اس کا عام چرچا نہ ہوا تھا، حضرت معاویہ ؓ نے چند لوگوں کی گواہی پر اس نسب کو تسلیم کر لیا، کیونکہ اسلام کے بعد جاہلیت کے نسبوں کا انکار نہیں ہوا تھا، لیکن چونکہ اس چیز کی شہرت عام نہ تھی، اس لیے بعض صحابہ کرام ؓ کو اس پر اعتراض تھا، جبکہ شرعی طور پر اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے، کیونکہ یہ جاہلیت کے دور کی بات ہے، جس میں اس نسب کو صحیح تسلیم کیا جاتا تھا۔ جاہلیت کے دور میں لوگ خود اپنی لونڈی سے یہ کسب کراتے تھے، جیسا کہ سورہ نور میں ہے، اس لیے اس پر اسلام کا اصول نافذ نہیں ہوگا، کیونکہ واقعہ پہلے کا ہے۔ لیکن تشریح "الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ" کے خلاف ہے، کیونکہ اگر چہ ابوسفیان ؓ نے زنا کیا تھا مگر بچہ قانونی طور پر اس لونڈی کے مالک کا بیٹا کہلائے گا۔ محترم حافظ عبدالسلام حفظہ اللہ کااعتراض درست نہیں ہے جاہلیت کے دور کے نسبوں کو اسلامی اصولوں پر نہیں پرکھا جا سکتا وگرنہ حضرت معاویہ ؓ کبھی اس حرکت کا ارتکاب نہ کرتے، وہ اسلام کے ہم سے زیادہ شیدائی تھے، اس طرح بہت سے نسب مشکوک ہوجائیں گے۔ اور وہ اسلام کے اصول "لِلْعَاهِرِ" سے ناواقف نہ تھے، امام ابوبکر ابن العربی مالکیؒ نے "العواصم من القواصم" ص: 235 پر حضرت معاویہ ؓ کے فعل کو صحیح قرار دیا ہے، تفصیلی بحث کے ليے دیکھئے: سیدنا معاویہ ؓ شخصیت وکردار: (2/64 تا 72) ، از حکیم محمود احمد ظفر سیالکوٹی۔