ہمام نےکہا: ہم سے قتادہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھارے سامنے قراءت کروں۔"انھوں نےکہا: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کے سامنے میرا نام لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے تمہارا نام لیا۔" تو حضرت ابی رضی اللہ عنہ رونے لگے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی سے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن سناؤں۔“ انہوں نے پوچھا، کیا اللہ تعالیٰ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو میرا نام لے کرفرمایا ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھے تیرا نام لے کر فرمایا ہے۔“ تو حضرت ابی رونے لگے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1864
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اہل علم اور صاحب کمال کی قدر دانی کے لیے اس کو ایک اعلیٰ اور افضل شخصیت کا قرآن سنانا ایک پسندیدہ طرز عمل ہے، جس سے اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور اس کو شرف و سعادت نصیب ہوتا ہے۔ حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے قرآن میں مہارت و شغف کی بنا پر یہ بلند مقام نصیب ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام لے کر اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کو قرآن مجید سنانے کی سعادت سے مشرف فرمانے کا حکم دیا، تاکہ آئندہ بھی کوئی استاد اپنے شاگرد کو قرآن سنانے میں عار محسوس نہ کرے اور تاکہ شاگرد اپنے استاد کا لہجہ اور طرز اور اچھی طرح محفوظ کرے اور آگے اپنے شاگردوں کو اسی طرح پڑھائے اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس دوہری سعادت کے حصول پر اس قدر فرحت و مسرت حاصل ہوئی کہ وہ اس کا حق شکر ادا نہ کر سکتے تھے، اس لیے روپڑے کہ میں کیا، میری حیثیت کیا، اور کہاں اتنا شرف کہ رب کائنات نام لے کر، اپنے رسول کو مجھے یہ شرف عنایت فرمانے کا حکم صادر فرمائے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1864
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1865
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں تمہں سورۃ ﴿لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ سناؤں۔“ انھوں نے پوچھا: اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے سامنے میرا نام لیا ہے؟یا آپﷺ کو میرا نام بتایا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“ تو وہ رونے لگے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1865]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: سورہ ﴿لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ ایک مختصر سورت ہے جس میں دین کے اصول و مبادی اور اہم ارکان کو بیان کیا گیا ہے کافر و مشرک لوگوں کا انجام و مقام اور ایمان و عمل صالح سے متصف لوگوں کا شرف و قدراور بدلہ بیان کیا گیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1865
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4959
4959. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے ابی بن کعب ؓ سے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں سورت ﴿لَمْ يَكُنِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟﴾ پڑھ کر سناؤں۔“ حضرت ابی بن کعب ؓ نے عرض کیا: ”اللہ تعالٰی نے میرا نام لیا تھا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“ اس پر وہ خوشی سے رونے لگے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4959]
حدیث حاشیہ: یہ سورت مدنی ہے۔ اس میں آٹھ آیات ہیں۔ خوشی کے مارے رونے لگے کہ کہاں میں ایک ناچیز بندہ اور کہاں وہ شہنشاہ ارض وسماء۔ بعضوں نے کہا کہ ڈر سے رو دیئے کہ اس عنایت و نوازش کا شکریہ تجھ سے کیونکر ہوسکے گا۔ عرب کے اہل کتاب اور مشرکین اپنے خیالات باطلہ واوہام فاسدہ پر اس قدر قانع تھے کہ وہ کسی قیمت پر بھی ان کو چھوڑنے والے نہ تھے لیکن اللہ نے ایک ایسا بہترین رسول جو مجسم دلیل تھا مبعوث فرمایا کہ ان کی پاکیزہ تعلیمات سے کتنے خوش نصیب راہ راست پر آ گئے۔ کتنوں کو ہدایت نصیب ہوئی۔ سورۃ بینہ میں اللہ پاک نے اسی مضمون کو بہترین انداز میں بیان فرمایا ہے اور قرآن پاک کو ﴿صُحُفا مُطَهرَة﴾ اور رسول کریم کو لفظ بینۃ سے تعبیر فرمایا ہے۔ صدق اللہ تبارك وتعالیٰ آمنا به وصدقنا ربنافاکتبنا مع الشاھدین (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4959
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4960
4960. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں۔“ حضرت ابی بن کعب نے عرض کیا: کیا اللہ تعالٰی نے آپ سے میرا نام لیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے تمہارا مجھ سے نام لیا تھا۔“ حضرت ابی بن کعب یہ سن کر رونے لگے۔ قتادہ نے بیان کیا: مجھے خبر دی گئی کہ آپ ﷺ نے انہیں ﴿لَمْ يَكُنِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِنْ أَهْلِ ٱلْكِتَـٰبِ﴾ پڑھ کر سنائی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4960]
حدیث حاشیہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ قرآن پاک کے حافظ قاری ہونے کی بنا پر اللہ کے ہاں اتنے مقبول ہوئے کہ خود اللہ پاک نے اپنے پیارے رسول کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے سامنے قرآن پاک سنانے کا حکم فرمایا، اس قسمت کا کیا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4960
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4961
4961. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پاک پڑھ کر سناؤں۔“ انہوں نے پوچھا: کیا اللہ تعالٰی نے آپ سے میرا نام لیا تھا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“ حضرت ابی بن کعب ؓ نے پھر عرض کی: میرا ذکر رب العالمین کی بارگاہ میں ہوا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“ اس پر ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4961]
حدیث حاشیہ: خوشی اور مسرت کے آنسو تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4961
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4961
4961. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پاک پڑھ کر سناؤں۔“ انہوں نے پوچھا: کیا اللہ تعالٰی نے آپ سے میرا نام لیا تھا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“ حضرت ابی بن کعب ؓ نے پھر عرض کی: میرا ذکر رب العالمین کی بارگاہ میں ہوا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“ اس پر ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4961]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کریم کے حافظ اور بہترین قاری تھے اس بنا پر رب العالمین کے ہاں اتنے مقبول ہوئے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ آپ کو قرآن سنائیں۔ اس سے ان کی خوش قسمتی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ 2۔ اس بات کا احتمال تھا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہو۔ کہ اپنی امت میں سے کسی صحابی کو قرآن سنائیں، کسی کے نام سے صراحت نہ ہو۔ اس لیے حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا تھا؟ جب انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہو گیا۔ کہ اللہ رب العزت نے ان کا نام لیا تھا، تو مارے خوشی کے رونے لگے کہ مالک کائنات نے اس بندہ عاجز کو شرف بخشا ہے۔ 3۔ بعض اہل علم سے یہ بھی منقول ہے کہ حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ رونا خوف کی بنا پر تھا کہ اس ناچیز پر غیر معمولی عنایات و نوازشات کا شکر مجھ سے ادا نہ ہو سکے گا۔ ہمارے رجحان کے مطابق پہلے معنی زیادہ وزنی اور قرین قیاس ہیں۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4961