یونس نے ابن شہاب سےروایت کی کہ محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیاکہ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نے جو ان صحابہ کرام میں سے تھے جو انصار میں سے جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے، (بیان کیا) کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! میری نظر خراب ہو گئی ہے، میں اپنی قوم کو نماز پڑھتا ہوں اور جب بارشیں ہوتی ہیں تو میرے اور ان کےدرمیان والی وادی میں سیلاب آجاتا ہے، اس کی وجہ سے میں ان کی مسجد میں نہیں پہنچ سکتا کہ میں انھیں نماز پڑھاؤں تو اے اللہ کے رسول! میں چاہتا ہوں کہ آپ (میرگھر) تشریف لائیں اور نماز پڑھنے کی کسی ایک جگہ پر نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو (مستقل طور پر) جائے نماز بنالوں۔ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ان شاء اللہ میں ایسا کروں گا۔“ عتبان رضی اللہ عنہ نے کہا: تو صبح کے وقت دن چڑھتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اندر آنے کی) اجازت طلب فرمائی، میں نے تشریف آوری کا کہا، آپ آ کر بیٹھے نہیں یہاں تک کہ گھر کے اندر (کے حصے میں) داخل ہوئے، پھر پوچھا: ”تم اپنے گھر میں کس جگہ چاہتے ہو کہ میں (وہاں) نماز پڑھوں؟“ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر تکبیر (تحریمہ) کہی اور ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے، آپ نے دورکعتیں ادا فرمائیں، پھر سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد ہم نے آپ کو خزیر (گوشت کے چھوٹے ٹکڑوں سے بنے ہوئے کھا نے) کے لیے روک لیا جو ہم نے آپ کے لیے تیار کیا تھا۔ (عتبان رضی اللہ عنہ نے) کہا: (آپ کی آمد کا سن کر) اردگرد سے محلے کے لوگ آگئے حتی کہ گھر میں خاصی تعدا د میں لوگ اکٹھے ہو گئے۔ ان میں سے ایک بات کرنے والے نے کہا: مالک بن دخشن کہاں ہے؟ ان میں سے کسی نے کہا: وہ تو منافق ہے، اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اس کے بارے میں ایسا نہ کہو، کیا تمھیں معلوم نہیں کہ اس نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے لاالہ الاللہ کہا ہے؟“(عتبان رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو لوگوں نے کہا: اللہ اور اس سکے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ اس (الزام لگانے والے) نےکہا: ہم تو اس کی وجہ اور اس کی خیر خواہی منافقوں ہی کے لے دیکھتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ نے اسے شخص کو آگ پر حرام قرار دیا ہے جو لاالہ الا اللہ کہتا ہے اور اس کے ذریعے سے اللہ کی رضا کا طلب گار ہے۔“ ابن شہاب نے کہا: میں نے (بعد میں) حصین بن محمد انصاری سے، جو بنو سالم سے تعلق رکھتے ہیں ان کے سرداروں میں سے ہیں، محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اس میں ان (محمود رضی اللہ عنہ) کی تصدیق کی۔
حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ان صحابہ کرام میں سے ہیں جو انصار سے جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری نظر کمزور ہو گئی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں اور جب بارشیں ہوتی ہیں تو میرے اور ان کے درمیان والا نالہ بہنے لگتا ہے، جس کی وجہ سے میں ان کی مسجد میں نہیں پہنچ سکتا کہ میں انہیں نماز پڑھاؤں اور میں چاہتا ہوں۔ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ (میرے گھر) تشریف لائیں اور کسی جگہ نماز ادا فرمائیں تاکہ میں اس جگہ کو نماز گاہ بنا لوں۔ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں إنْ شَاءَ اللہُ آؤں گا اور یہ کام کروں گا“ عتبان بتاتے ہیں کہ جب دن کافی بلند ہو گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معیت میں تشریف لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اندر آنے کی) اجازت طلب فرمائی، میں نے اجازت دے دی۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم گھر داخل ہو کر بیٹھے نہیں، پھر فرمایا: تم اپنے گھر میں نے کس جگہ میرے نماز پڑھنے کو پسند کرتے ہو؟ میں نے گھر کے ایک کونہ کی طرف اشارہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی اور ہم آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں ادا کیں، پھر سلام پھیر دیا، ہم نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو قیمہ کی آمیزش سے مالیدہ تیار کیا تھا اس کے لیے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا، عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں (آپصلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا سن کر) ہمارے محلہ کے ہمارے گردونواح کے لوگ جمع ہو گئے حتیٰ کہ ہمارے گھر میں کافی تعداد میں لوگ اکٹھے ہو گئے تو ان میں سے کسی نے پوچھا، مالک بن دخشن کہاں ہے؟ تو ان میں سے کسی نے کہا: وہ تو منافق ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں رکھتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے بارے میں یہ بات نہ کہو، کیا تمہیں معلوم نہیں اس نے اللہ تعالیٰ کے چہرے کے لیے لَاإِلٰهَ إِلَّاالله کا اقرار کیا ہے؟“ تو صحابہ کرام نے کہا، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں، ہم تو اس کا رخ اور اس کی خیر خواہی منافقوں کے لیے دیکھتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کے لیے آگ کو حرام قرار دیا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطرلَاإِلٰهَ إِلَّاالله کا اقرار کرے۔“ ابن شہاب کہتے ہیں میں نے بعد میں حصین بن محمد انصاری سے جو بنو سالم کے سرداروں میں سے ہیں، محمود بن ربیع کی اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو اس نے محمود کی تصدیق کی۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1496
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) خَزِيْر: گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے اس کو کھلے پانی میں پکانا اور پکنے کے بعد چولہے پر ہی گوشت پر آٹا چھڑک دینا۔ (2) ثَابَ رِجَالٌ مِّنْ أَهْلِ الدَّار: محلہ کے بہت سارے لوگ جمع ہوگئے یہاں دار سے مراد محلہ ہے، احاطہ یا حویلی نہیں۔ (3) سَرَاتِهِمْ: سَرَات سَري کی جمع ہے، سردار۔ فوائد ومسائل: (1) کسی صاحب علم و فضل شخصیت کو خیر و برکت کے لیے گھر بلانا جائز ہے تاکہ اس سے کسی نیک کام کا افتتاح کروایا جائے۔ (2) کسی متقی اور پرہیز گار شخصیت سے مسجد کا افتتاح کروانا اور اس سے نماز پڑھوانا جائز ہے اسی طرح ضرورت کے لیے گھر میں نماز کے لیے جگہ مخصوص کرانا اور اس میں قابل احترام شخصیت سے نماز پڑھانے اپیل کرنا اور بعد میں خود اس جگہ نماز پڑھنا درست ہے۔ (3) اگر کوئی انسان کسی بزرگ اور محترم شخصیت کو کسی نیک مقصد کی خاطرگھر میں بلائے تو اس کو اس کی دعوت کو قبول کر کے اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور ایسے موقع پر کھانے کا اہتمام کرنا بھی درست ہے۔ (4) وعدہ کو پورا کرنے کی نیت سے إن شاء اللہ کہنا چاہیے اس کو فرار کا بہانا نہیں بنانا چاہیے۔ (5) اگر کسی بزرگ اور قابل احترام شخصیت کو بلایا جائے تو وہ اپنے ساتھ اپنے رفیق کو لے جا سکتا ہے۔ (6) اگر کسی شخص کو گھر بلایا جائے تو وہ بلا اجازت گھر میں داخل نہیں ہو سکتا اس کو اندر داخل ہونے کے لیے اجازت لینی ہو گی۔ (7) کسی شخص کو جس مقصد کے لیے بلایا جائے اسے سب سے پہلے اس کو پورا کرنا چاہیے۔ (8) کبھی کبھار نفل باجماعت ادا کیے جا سکتے ہیں اور ان کی کم ازکم تعداد دو ہے۔ (9) اگر کسی جگہ کوئی بزرگ شخصیت آئے تو اس کی خدمت اور اس سے فیض (دینی مسائل) حاصل کرنے کے لیے وہاں کے لوگوں کو جمع ہونا چاہیے۔ (10) اگر کوئی انسان کسی مجبوری اور عذر کی بنا پر مسجد میں حاضر نہ ہو سکتا ہو۔ تو اس کے لیے گھر پر نماز پڑھنا جائز ہے-(11) کسی قرینہ کی بنا پر کسی پر نقد و تبصرہ کرنا یہ الزام تراشی اور جرم نہیں ہے لیکن اگر سننے والے کے سامنے اس سے بہتر قرینہ اور علامت اس کے خلاف موجود ہو تو اس کو نقد اور تبصرہ کرنے والے کی اصلاح کرنی چاہیے کہ تمھارا قیافہ درست نہیں ہے۔ (12) منافقوں سے میل جول رکھنا جبکہ انسان خود ان سے متأثر نہ ہو اور ان کی حرکات کو درست نہ سمجھتا ہو جائز ہے۔ (13) لَاإِلٰهَ إِلَّاالله دین کو قبول کرنے کا عنوان ہے اور اس بات کا عہد کرنا ہے کہ میں مکمل دین کو قبول کرتا ہوں اور اس پر عمل پیرا ہونے کا عہد کرتا ہوں۔ (14) صدق دل سے دین کو قبول کرنا اور اس پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ خالص رکھنا جنت میں جانے کی ضمانت ہے۔ (15) اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپﷺ لوگوں کے دلوں کے حالات سے آگاہ تھے کیونکہ آپﷺ نے ابن دخشن کو منافق کہنے والے کو مخاطب کر کے فرمایا تھا۔ (الا تَرَاهُ) کیا تم اس کو دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے لَاإِلٰهَ إِلَّاالله کا اقرار، اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا ہے تو کیا وہ انسان اس کے دل کے حالات سے آگاہی حاصل کر سکتا تھا کسی کے اعمال وافعال اور سیرت وکردار کو دیکھ کر۔ اس کے بارے میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے قرآن مجید میں آپﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے: ﴿فَلَعَرَفْتَهُم بِسِيمَاهُمْ ۚ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ ۚ ﴾”آپ ان کو علامت سے پہچان لیں گے اور آپ ان کو ان کے بات کرنے کے ڈھنگ اور اسلوب سے جان لیں گے۔ “ دلوں کے حالات کے بارے میں تو فرمایا گیا: ﴿لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ﴾”آپ ان کو نہیں جانتے ہم ہی ان کو جانتے ہیں۔ “(16) نابینا انسان امام بن سکتا ہے۔