۔ حضرت جندب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات سے پانچ دن پہلے یہ کہتے ہوئے سنا: ” میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس چیز سے براءت کا اظہار کرتا ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے، جس طرح اس نے ابراہیم رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیل بنایا تھا، اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابو بکر کو خلیل بناتا، خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا کرتے تھے، خبردار! تم قبروں کو سجدہ گاہیں نہ بنانا، میں تم کو اس سے روکتا ہوں۔“
حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پانچ دن پہلے یہ کہتے ہوئے سنا کہ: ”میں اللّٰہ تعالیٰ کے حضور اس چیز سے براءت کا اظہار کرتا ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے، جیسا کہ اس نے ابراھیم عَلیہِ السَّلام کو اپنا خلیل بنایا ہے اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا، خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء علیهم السلام اور نیک لوگوں کی قبروں کو مسجدیں یا سجدہ گاہ بنا لیے کرتے تھے، خبردار! تم قبروں کو مسجد نہ بنانا، بے شک میں تم کو اس سے روکتا ہوں“۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1188
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے بارے میں فرمایا: جب ان کا کوئی نیک آدمی فوت ہوتا (بَنَوْ عَلٰى قَبْرِهِ مَسْجِداً) ”وہ اس کی قبرپر مسجد بنا دیتے“ اور(صَوَّرُوْا فِيهِ تِلْكَ الصُّورَة) ”اور اس میں ان لوگوں کی تصویرں بنا دیتے“۔ اور ظاہر ہے ان نیک لوگوں کی تصویریں بنانے سے ان کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ان تصویروں کو دیکھ کر ان نیک لوگوں سے مانوس ہوں اور ان کے اچھے اور پسندیدہ حالات کو یاد کریں تاکہ پھر وہ بھی ان کی طرح اچھے کاموں کو شوق و رغبت اور محنت و کوشش سے سرانجام دیں لیکن انجام کار انہیں تصویروں کی عبادت اور تعظیم ہونے لگی یعنی جو کچھ کام اچھے اور نیک جذبہ کے تحت کیا گیا تھا وہی گمراہی اور شرک کا باعث بن گیا اور یہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق (شَرَارُ الْخَلْق) سب مخلوق سے بدتراور شرير ٹھہرے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان فرمایا کہ آپﷺ نے مرض الموت میں فرمایا: ”کہ یہودونصاریٰ پراللہ لعنت برسائے انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا“ یعنی جس طرح انسان مسجد میں نماز پڑھتا ہے ذکرواذکار اور دعا کرتا ہے ان کو پاک وصاف اور معطر کرتا ہے وہاں روشنی کا انتظام کرتا ہے یہ سب کام انھوں نے انبیاءعلیهم السلام کی قبروں پر شروع کر دئیے آپ ﷺکو اپنے بارے میں بھی یہ خطرہ اور اندیشہ محسوس ہوا تو آپﷺ نے اس حرکت وفعل سے صراحتاً روک دیا۔ فرمایا: (إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذٰلِكَ) ”میں تمھیں اس کام سے منع کرتا ہوں“ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بقول اسی خطرہ کے پیش نظر آپﷺ کی قبر کھلی جگہ نہیں بنائی گئی چونکہ پہلی امت میں یہ کام شرک کے لیے دروازہ ثابت ہو چکا تھا اس لیے آپﷺ نے اس دروازہ کو ہمیشہ کے لیے بند فرما دیا اب آپﷺ کی صریح ممانعت کے باوجود بعض علماء کی عبارتوں سے کسی صالح اور نیک انسان کی قبر کے جوار میں مسجد بنانے کی گنجائش نکالنا اس شرک کے دروازہ کو کھولنا ہے۔ جس کو آپﷺ بند کرنے کا حکم فرما چکے ہیں جب یہ بات مسلمہ ہے کہ قبروں کو عبادتاً سجدہ کرنا شرک اور تعظیماً سجدہ کرنا حرام ہے اور قبر کا طواف کرنا حرام ہے اس کے سامنے جھکنا حرام ہے تو پھر اس کام کو ہی کیوں نہ بند کیا جائے جوان کا موجب اور پیش خیمہ بنتا ہے؟ اور نیک لوگوں کی قبروں پر ان چیزوں کا کھلے بند مشاہدہ کیا جا سکتا ہے صحابہ و تابعین کے دور میں جب مسجد نبویﷺ کو وسیع کرنے کی ضرورت پیش آئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرہ (جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی قبریں ہیں) اس کو اس انداز سے مسجد میں داخل کیا گیا کہ لوگوں کی ان تک رسائی نہ ہو سکے وہ نہ ان کو نظر آئیں اور نہ ان کے پاس یا ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ سکیں اور اب تک یہ صورت حال برقرار ہے اگر نیک لوگوں کی قبروں کے جوار میں نماز پڑھنا خیرو برکت کا باعث ہے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین نے حجرہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کیوں مستور کیا اور اس کی قبروں کو کیوں چھپایا۔ آپﷺ نے اپنی وفات سے پانچ دن پہلے فرمایا تھا کہ تم سے پہلے لوگ اپنے پیغمبروں اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے۔ (فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ) ”خبردار!تم ان لوگوں کی طرح قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا“ آپﷺ کے صریح فرمان کے باوجود لوگوں کے لیے اس کا راستہ کھولنے پر اصرارکیوں ہے؟ اور یہ کہنے کا کیا مقصد ہے کہ کعبہ سے بڑی دنیا میں کوئی مسجد نہیں ہے؟ اور اس کے جوار میں حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت حاجرہ علیہاالسلام کی قبریں ہیں۔ (شرح صحیح مسلم: 2/ 8) کیا ان قبروں کا کوئی نشان باقی ہے یا لوگوں کو اس کا احساس ہے۔ (2) سب انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے اس لیے عیسائیوں کی طرف اگرچہ براہ راست تو عیسیٰ علیہ السلام ہی آئے تھے لیکن پہلے انبیاءعلیہم السلام کو بھی تو وہ تسلیم کرتے تھے اس لیے آپﷺ نے یہود کے ساتھ نصاریٰ کے لیے بھی انبیاءعلیہم السلام کا لفظ استعمال کیا یا مجموعی اعتبار سے دونوں کے لیے کہا۔ (3) خلیل کو اگر (خُلَّة)(خاء کے پیش کے ساتھ) سے لیں تو اس سے مراد ایسی گہری اور سچی و دوستی ہے جو دل میں سرایت کر جائے اور یہ صرف کسی ایک کے ساتھ ہو سکتی ہے دوسرے کے لیے گنجائش نہیں رہتی اور اگر اس کو (خَلَّة)(خاء کے زبر کے ساتھ) سے لیں تو اس سے مراد فقرواحتیاج ہے یعنی میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر اعتماد وبھروسہ نہیں کرتا اور میں اللہ کے سوا کسی کا محتاج نہیں ہوں اگر میں مخلوق میں سے کسی کے ساتھ ایسی دوستی اور محبت کر سکتا جس نے میرے دل پر قبضہ جما لیا ہے یا کسی پر اعتماد و بھروسہ کرتا اور اس کا محتاج ہوتا تو اس کا اہل اور حق دار ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوتے۔