الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1050
حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنی قوم کی امامت کراؤ“۔ میں نے عرض کیا مجھے کچھ جھجک محسوس ہوتی ہے، آپﷺ نے فرمایا: ”قریب ہوجا“۔ آپﷺ نے مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر اپنی ہتھیلی میرے سینہ پر میرے پستانوں کے درمیان رکھی، پھر فرمایا: ”پھر جا“ پھرنے کے بعد آپﷺ نے ہتھیلی میری پشت پر میرے کندھوں کے درمیان رکھی، پھر فرمایا: ”اپنی قوم کی امامت کراؤ اور جو لوگوں کا امام بنے وہ نماز میں تخفیف کرے، کیونکہ ان میں بوڑھے بھی ہوتے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1050]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
(أَنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي)
کے علماء نے مختلف مفہوم مراد لیے ہیں:
1۔
میں امام بن کر عجب اورتکبر میں مبتلا ہونے سے ڈرتا ہوں۔
2۔
میں شرم وحیا اور اس کام کی ادائیگی میں کمزوری محسوس کرتا ہوں۔
3۔
میں نماز میں وسوسہ میں مبتلا ہو جاتا ہوں،
اور اس کی تائید میں عثمان ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے ہوتی ہے۔
جس میں یہ آیا ہے،
میں نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شیطان میری نماز میں حرج ڈال دیتا ہے،
مجھے قرآن پڑھتے بھلا دیتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کی برکت سے ان کی یہ خرابی دور ہو گئی۔
2۔
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے نماز میں سب لوگوں کو شریک ہونا چاہیے اپنی کمزوری بیماری یا ضرورت کو جماعت سے پیچھے رہنے کا بہانہ نہیں بنانا چاہیے اور امام کو بھی اپنے مقتدیوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1050