الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


الادب المفرد
كِتَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ
كتاب صلة الرحم
38. بَابُ تَعَلَّمُوا مِنْ أَنْسَابِكُمْ مَا تَصِلُونَ بِهِ أَرْحَامَكُمْ
38. ”نسب کو جانو جس کے ساتھ تم رشتہ داریوں کو ملاؤ“ کا بیان
حدیث نمبر: 73
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ‏:‏ احْفَظُوا أَنْسَابَكُمْ، تَصَلُوا أَرْحَامَكُمْ، فَإِنَّهُ لاَ بُعْدَ بِالرَّحِمِ إِذَا قَرُبَتْ، وَإِنْ كَانَتْ بَعِيدَةً، وَلاَ قُرْبَ بِهَا إِذَا بَعُدَتْ، وَإِنْ كَانَتْ قَرِيبَةً، وَكُلُّ رَحِمٍ آتِيَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمَامَ صَاحِبِهَا، تَشْهَدُ لَهُ بِصِلَةٍ إِنْ كَانَ وَصَلَهَا، وَعَلَيْهِ بِقَطِيعَةٍ إِنْ كَانَ قَطَعَهَا‏.‏
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: اپنے نسبوں کی حفاظت کرو تاکہ تم رشتہ داری کر سکو، کیونکہ کوئی بھی رشتہ داری خواہ دور ہی کی ہو صلہ رحمی سے دور کی نہیں رہتی۔ اور کوئی بھی تعلق داری خواہ کتنی قریب کی ہو، اگر اسے جوڑا نہ جائے تو وہ دور ہو جاتی ہے، اور ہر رحم قیامت کے دن آگے آگے آئے گا اور صلہ رحمی کرنے والے کی صلہ رحمی کی گواہی دے گا، اور جس نے قطع رحمی کی ہو گی اس کے خلاف قطع رحمی کی گواہی دے گا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ/حدیث: 73]
تخریج الحدیث: «صحيح الإسناد و صح مرفوعًا: أخرجه الطيالسي: 2757 و الحاكم: 178/4 و البيهقي فى الشعب: 7570، عن ابن عباس مرفوعًا الصحيحة: 277»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد و صح مرفوعًا

الادب المفرد کی حدیث نمبر 73 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 73  
فوائد ومسائل:
(۱)مسند ابو داؤد طیالسی میں یہ روایت مرفوعاً مروی ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلة احادیث الصحیحة (۲۷۷)میں ذکر کیا۔ اس روایت کا سیاق یوں ہے:سعید بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مجلس میں موجود تھا کہ اس دوران ایک شخص ان کے پاس آیا۔ انہوں نے پوچھا:تم کون ہو؟ اس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دور کی کوئی رشتہ داری بتائی تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بڑے شفیقانہ انداز میں اس سے گفتگو کی اور پھر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:پھر مذکورہ حدیث بیان کی۔
(۲) اپنے نسبوں کی حفاظت کرو ایک روایت میں ہے اپنے نسبوں کی جان پہچان رکھو۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جب تمہیں علم ہوگا کہ فلاں تمہارا رشتہ دار ہے تو تم اس کے حقوق ادا کرنے کی بھی کوشش کرو گے اور اگر تمہیں اس کا علم ہی نہیں ہوگا تو تم حقوق کیسے ادا کرو گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتہ داریاں ٹوٹنے اور رشتہ داروں کے ایک دوسرے سے دور ہونے کی وجہ بتائی کہ جب انسان ایک دوسرے کو ملے ہی نہ تو آہستہ آہستہ محبت ختم ہو جاتی ہے اور قریبی رشتہ داری بھی دور کی بن جاتی ہے۔ اہل عرب کا یہ مقولہ معروف ہے:
زرغبًا تزدد حبًا۔
گاہے گاہے ملا کرو اس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ (مطلب تو یہ ہے عزت کھو دیتا ہے روز روز کا آنا جاناالبتہ یہ بات درست ہے کہ ملاقات ہوتی رہے تو محبت قائم رہتی ہے ورنہ اس کا گراف نیچے آ جاتا ہے حتیٰ کہ جان پہچان بھی باقی نہیں رہتی)دور حاضر میں انسانی زندگی عجیب رخ اختیار کرچکی ہے۔ ہر انسان دنیاوی مشاغل میں اس قدر مصروف ہے کہ اسے آس پاس کی خبر نہیں۔ رشتہ دار و عزیز ملک کے اطراف و اکناف میں پھیلے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے ملنے کا سلسلہ بہت قریبی رشتہ داروں تک محدود رہ گیا ہے اور وہ بھی مہینوں اور سالوں کے بعد۔ ایسے حالات میں بھی انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ ہر ممکن عزیز و اقارب کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ خود نہیں جاسکتا تو ٹیلی فون کے ذریعے ہی احوال دریافت کرتا رہے اور خوشی غمی میں تو کم از کم ضرور شرکت کرے۔ یہ صرف تعلق داری نہیں بلکہ بہت بڑی نیکی بھی ہے اور اس میں کوتاہی صرف غفلت نہیں بلکہ قابل موأخذہ گناہ بھی ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ رشتہ داری کو اگر ملایا ہوگا تو وہ روز قیامت انسان کے حق میں گواہی دے گی اور اگر اس کا لحاظ اور پاس نہ رکھا گیا ہوگا تو وہ انسان کے خلاف اللہ تعالیٰ کے حضور دعویٰ دائر کرے گی۔
(۳) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، جب آپ کو معلوم ہوا کہ وہ میرا عزیز ہے، نرمی اور شفقت سے گفتگو فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ عزیز واقارب کے ساتھ عام لوگوں سے بڑھ کر مشفقانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے لیکن افسوس کہ آج ہم دوستوں اور عام ملنے والوں کے ساتھ تو حسن اخلاق سے پیش آتے ہیں جبکہ رشتہ داروں کے لیے ہمارے رویے میں ذرہ نرمی نہیں ہوتی۔ دوستوں کی باتیں نظر انداز کر جاتے ہیں لیکن عزیز و اقارب سے صرف نظر کے لیے تیار نہیں ہوتے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اس میں ان پڑھ اور اصحاب العلم سب ایک ڈگر پر چل رہے ہیں۔ اللہ سمجھ عطا فرمائے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 73