محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: وہ (سلف) کہتے تھے: اپنے دوست کی اس طرح تکریم نہ کرو جس سے وہ مشقت میں پڑ جائے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الزِّيَارَةِ/حدیث: 344]
تخریج الحدیث: «صحيح الإسناد موقوف: أخرجه أحمد فى الزهد: 1772 و المروزي فى البر و الصلة: 145 و ابن وهب فى الجامع: 186 و البيهقي فى شعب الإيمان: 8672»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 344
فوائد ومسائل: (۱)یعنی اس کی ایسی تکریم نہ کرو کہ جس کا بدلہ نہ دے سکے اور شرمندہ ہوکر اذیت محسوس کرے۔ انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ کسی کے احسان کے نیچے دب کر زندگی گزارنا پسند نہیں کرتا بلکہ اگر اس پر کوئی احسان کرے تو اس کا بدلہ چکانے کی کوشش کرتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر تمہارے اوپر کوئی احسان کرے تو اس کا بدلہ دو اور اگر تمہارے پاس وسائل نہ ہوں تو اس کی اچھی تعریف ہی کردو۔ دوسرے لفظوں میں ایسا تکلف نہ کرو کہ دوسرے کے لیے ایسا کرنا مشکل ہو۔ (۲) ہمارے ہاں شادی بیاہ کے موقع پر ایسا تکلف کیا جاتا ہے کہ دوسرا شخص اس کا بدلہ چکانے کے لیے مشکل میں پڑ جاتا ہے بلکہ اگر وہ اس سے بہتر نہ دے تو اسے معیوب سمجھا جاتا ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 344