سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام اوقات میں سب سے زیادہ سخی اس وقت ہوتے جب رمضان میں جبریل امین علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے، اور جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کی ہر رات میں ملتے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کا دور فرماتے۔ اور جب جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیز ہوا سے بھی زیادہ سخاوت کرتے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 292]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الصوم، باب أجود ما كان النبى صلى الله عليه وسلم يكون فى رمضان: 1902 و مسلم: 2308 و النسائي: 2095»
أجود الناس وكان أجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل وكان جبريل يلقاه في كل ليلة من رمضان فيدارسه القرآن فان رسول الله حين يلقاه جبريل أجود بالخير من الريح المرسلة
أجود الناس بالخير وأجود ما يكون في شهر رمضان لأن جبريل كان يلقاه في كل ليلة في شهر رمضان حتى ينسلخ يعرض عليه رسول الله القرآن فإذا لقيه جبريل كان أجود بالخير من الريح المرسلة
أجود الناس بالخير وكان أجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل وكان جبريل يلقاه كل ليلة في رمضان حتى ينسلخ يعرض عليه النبي القرآن فإذا لقيه جبريل كان أجود بالخير من الريح المرسلة
أجود الناس بالخير وكان أجود ما يكون في شهر رمضان إن جبريل كان يلقاه في كل سنة في رمضان حتى ينسلخ فيعرض عليه رسول الله القرآن فإذا لقيه جبريل كان رسول الله أجود بالخير من الريح المرسلة
أجود الناس وكان أجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل وكان جبريل يلقاه في كل ليلة من شهر رمضان فيدارسه القرآن قال كان رسول الله حين يلقاه جبريل أجود بالخير من الريح المرسلة
اجود الناس بالخير، وكان اجود ما يكون في رمضان، حين يلقاه جبريل صلى الله عليه وسلم، وكان جبريل يلقاه في كل ليلة من رمضان، يعرض عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم القرآن، فإذا لقيه جبريل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اجود بالخير من الريح المرسلة
اجود الناس بالخير وكان اجود ما يكون في شهر رمضان، حتى ينسلخ فياتيه جبريل فيعرض عليه القرآن، فإذا لقيه جبريل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اجود بالخير من الريح المرسلة
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 292
فوائد ومسائل: (۱)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ افضل ایام میں کثرت سے صدقہ و خیرات کرنا چاہیے۔ خصوصاً رمضان میں عام دنوں سے زیادہ صدقہ کرنا چاہیے۔ (۲) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا ہے:نیک و صالح لوگوں سے مل بیٹھنا، ان کی زیارت کرنا اور اگر وہ ناپسند نہ کریں تو بار بار ملنا مسنون ہے۔ (۳) سخاوت کی تعریف یہ ہے کہ جس قدر دینا ممکن ہو اور جس کو دینا ممکن ہو دے دینا، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے کیونکہ آپ کا دل سب سے زیادہ سختی تھا، پھر جبریل کی ملاقات کی خوشی میں جبکہ وہ قرآن کا دور کرتے یہ خوشی دو بالا ہو جاتی اور آپ پہلے سے زیادہ سخاوت کرتے۔ اور ایسا کرنا حسن اخلاق کی دلیل ہے۔ (۴) اس سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں تفہیم قرآن کی خصوصی مجالس کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ نیکی کے ماحول سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔ (۵) اس حدیث میں قرآن مجید کا دور کرنے اور اسے یاد کرنے کی ترغیب ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 292
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6
´قرآن یعنی وحی کا نزول رمضان شریف میں شروع ہوا` «. . . قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ جواد (سخی) تھے اور رمضان میں (دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب) جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے . . .“[صحيح البخاري/كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ: 6]
� تشریح: اس حدیث کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ رمضان شریف میں حضرت جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تو معلوم ہوا کہ قرآن یعنی وحی کا نزول رمضان شریف میں شروع ہوا۔ جیسا کہ آیت شریفہ «شهر رمضان الذى انزل فيه القرآن»[البقرة: 185] میں مذکور ہے۔ یہ نزول قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں سماء دنیا کی طرف تھا۔ پھر وہاں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول بھی رمضان شریف ہی میں شروع ہوا۔ اسی لیے رمضان شریف قرآن کریم کے لیے سالانہ یادگار مہینہ قرار پایا اور اسی لیے اس مبارک ماہ میں آپ اور حضرت جبرئیل علیہ السلام قرآن مجید کا باقاعدہ دور فرمایا کرتے تھے۔ساتھ ہی آپ کے ”جود“ کا ذکر خیر بھی کیا گیا۔
سخاوت خاص مال کی تقسیم کا نام ہے اور «جود» کے معنی «اعطاءما ينبغي لمن ينبغي» کے ہیں جو بہت زیادہ عمومیت لئے ہوئے ہے۔ پس «جود» مال ہی پر موقوف نہیں۔ بلکہ جو شے بھی جس کے لئے مناسب ہو دے دی جائے، اس لئے آپ «اجود الناس» تھے۔ حاجت مندوں کے لئے مالی سخاوت، تشنگان علوم کے لئے علمی سخاوت، گمراہوں کے لئے فیوض روحانی کی سخاوت، الغرض آپ ہر لحاظ سے تمام بنی نوع انسان میں بہترین سخی تھے۔ آپ کی جملہ سخاوتوں کی تفصیلات کتب احادیث و سیر میں منقول ہیں۔
آپ کی «جود» و سخاوت کی تشبیہ بارش لانے والی ہواؤں سے دی گئی جو بہت ہی مناسب ہے۔ باران رحمت سے زمین سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے۔ آپ کی جود و سخاوت سے بنی نوع انسان کی اجڑی ہوئی دنیا آباد ہو گئی۔ ہر طرف ہدایات کے دریا بہنے لگے۔ خدا شناسی اور اخلاق فاضلہ کے سمندر موجیں مارنے لگے۔ آپ کی سخاوت اور روحانی کمالات سے ساری دنیائے انسانیت نے فیض حاصل کئے اور یہ مبارک سلسلہ تا قیام دنیا قائم رہے گا۔ کیوں کہ آپ پر نازل ہونے والا قرآن مجید وحی متلو اور حدیث شریف وحی غیرمتلو تاقیام دنیا قائم رہنے والی چیزیں ہیں۔ پس دنیا میں آنے والے انسان ان سے فیوض حاصل کرتے ہی رہیں گے۔ اس سے وحی کی عظمت بھی ظاہر ہے اور یہ بھی کہ قرآن وحدیث کے معلمین و متعلمین کو بہ نسبت دوسرے لوگوں کے زیادہ سخی،جواد وسیع القلب ہونا چاہئیے کہ ان کی شان کا یہی تقاضہ ہے۔خصوصاً رمضان شریف کا مہینہ جود و سخاوت ہی کا مہینہ ہے کہ اس میں ایک نیکی کا ثواب کتنے ہی درجات حاصل کر لیتا ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ مبارک میں خصوصیت کے ساتھ اپنی ظاہری و باطنی سخاوتوں کے دریا بہا دیتے تھے۔
سند حدیث: پہلا موقع ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سند حدیث میں تحویل فرمائی ہے۔ یعنی امام زہری تک سند پہنچا دینے کے بعد پھر آپ دوسری سندکی طرف لوٹ آئے ہیں اور عبدان پہلے استاد کے ساتھ اپنے دوسرے استاد بشر بن محمد کی روایت سے بھی اس حدیث کو نقل فرمایا ہے اور زہری پر دونوں سندوں کو یکجا کر دیا۔ محدثین کی اصطلاح میں لفظ ح (مثلاً جو اس سند میں آیا ہے «عن الزهري. ح وحدثنا بشر بن محمد») سے یہی تحویل مراد ہوتی ہے۔ اس سے تحویل سند اور سند میں اختصار مقصود ہوتا ہے۔ آگے اس قسم کے بہت سے مواقع آتے رہیں گے۔ بقول علامہ قسطلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی سند میں روایت حدیث کی مختلف اقسام تحدیث، اخبار، عنعنہ، تحویل سب جمع ہو گئی ہیں۔جن کی تفصیلات مقدمہ میں بیان کی جائیں گی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3554
3554. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے۔ اور رمضان المبارک میں تو آپ بہت زیادہ سخاوت کرتے تھےجب آپ سے حضرت جبرئیل ؑ ملاقات کرتے تھے۔ اور وہ رمضان میں ہر رات آپ سے ملاقات کرتے اور آپ کے ساتھ قرآن کریم کا دور کرتے تھے۔ بے شک رسول اللہ ﷺ خیرو بھلائی کے ہرمعاملے میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3554]
حدیث حاشیہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار اوصاف حسنہ میں سے یہاں آپ کی صفت سخاوت کا ذکر ہے۔ اس حدیث کو اسی لیے اس باب کے تحت لائے۔ باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3554
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3220
3220. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور آپ بہت زیادہ سخاوت رمضان المبارک میں کرتے تھے جبکہ آپ سے حضرت جبرئیل ؑ ملاقات کرتے تھے۔ اور وہ رمضان المبارک میں ہر رات آپ سے ملاقات کرتے اور آپ سے قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے۔ اور جب حضرت جبرئیل ؑ آپ سے ملاقات کرتے تو آپ صدقہ وخیرات کرنے میں کھلی تیز ہوا (تیز آندھی) سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔ حضرت معمر نے بھی اپنی سند سے اسی طرح بیان کیا ہے، نیز حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ آپ سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3220]
حدیث حاشیہ: یعنی ہر سال میں ایک بار آتے مگر جس سال میں آپ کی وفات ہوئی تو حضرت جبرئیل ؑ نے دوبار حاضر خدمت ہوکر دور کیا۔ کہتے ہیں کہ زید بن ثابت کی قرات آنحضرت ﷺ کے اخیر دور کے موافق ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کی جو رویات مذکور ہوئی ہیں ان کو خود حضرت امام بخاری ؒ نے باب علامات النبوۃ اور فضائل القرآن میں وصل کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3220
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4997
4997. سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا نبی ﷺ صدقہ وخیرات کرنے میں تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور ماہ رمضان کے مہینے میں سیدنا جبریل علیہ سلام آپ نے ہر رات ملاقات کرتے تھے تا آنکہ ماہ رمضان ختم ہو جاتا، وہ ان راتوں میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قرآن مجید کا دور کرتے تھے جب جبرئیل علیہ السلام آپ نے ملتے تو اس وقت آپ ﷺ تیز ہوا سے بھی بڑھ کر سخی ہو جاتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4997]
حدیث حاشیہ: سخاوت سے مالی جانی جسمانی و روحانی ہر قسم کی سخاوتیں مراد ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان جملہ اقسام سخاوت کے جامع تھے سچ ہے۔ بلغ العلی بکماله کشف الد جیٰ بجماله حسنت جمیع خصاله صلوا علیه و آله
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4997
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2097
´ماہ رمضان میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی مہربانی اور جود و سخا کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی آدمی تھے، اور رمضان میں جس وقت جبرائیل علیہ السلام آپ سے ملتے تھے آپ اور زیادہ سخی ہو جاتے تھے، جبرائیل علیہ السلام آپ سے ماہ رمضان میں ہر رات ملاقات کرتے (اور) قرآن کا دور کراتے تھے۔ (راوی) کہتے ہیں: جس وقت جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے تو آپ تیز چلتی ہوئی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2097]
اردو حاشہ: (1)”زیادہ سخاوت“ رمضان المبارک میں ہر کام کا ثواب بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، اس لیے آپ اس مہینے میں زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔ حضرت جبریل کی ملاقات کے وقت اس میں اور اضافہ ہوتا تھا کیونکہ ان کے ساتھ نازل شدہ قرآن کا دور ہوتا تھا۔ قرآن کا نزول اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان تھا، پھر دور کے ذریعے سے اس کی حفاظت اس سے بھی بڑھ کر احسان ہے، لہٰذا شکرانے کے طور پر آپ سخاوت فرماتے تھے، نیز یہ بھی قرآن مجید پر عمل کرنے کی ایک صورت ہے۔ (2)”چھوڑی ہوئی (تیز) ہوا“ یعنی خیر و برکت اور بارش والی ہوا سے بھی زیادہ صاحب خیر وسخاوت ہوتے تھے۔ ظاہر ہے مذکورہ ہوا قریب وبعید کے تمام کے لیے بہت مفید ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2097
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6009
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر (کسی کی بھلائی و ہمدردی) میں سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے۔ اور آپﷺ کی سخاوت سب سے زیادہ رمضان میں ہوتی تھی، جبریل علیہ السلام ہر سال رمضان میں، مہینہ کے ختم ہونے تک آپﷺ کو ملتے، رسول اللہ ﷺ اس پر قرآن پیش کرتے، (دور کرتے) تو جب آپﷺ کو جبریل علیہ السلام ملتے تو رسول اللہ ﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہوتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6009]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) أجود الناس: جود کا معنی ہوتا ہے، ہر انسان کو اس کی ضرورت کی چیز عطا کرنا۔ یعنی جس کو علم و معرفت کی ضرورت ہوتی، اس کو علوم و معارف سے نوازتے، ننگے کو لباس پہناتے، بھوکے کو کھانا کھلاتے اور سخی تو صرف مال کی سخاوت کرتا ہے۔ (2) الريح المرسلة: آزاد چھوڑی ہوئی ہوا جو انتہائی تیز ہوتی ہے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ فضیلت والے دنوں میں جودوسخا زیادہ کرنا چاہیے اور ماہ رمضان میں تلاوت قرآن کا اہتمام بھی زیادہ کرنا چاہیے، کیونکہ آپ اس مہینہ میں جبریل کے ساتھ دور کرتے تھے، یہ قرآن سنتے اور سناتے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6009
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6
6. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے، خصوصاً رمضان میں جب حضرت جبریل سے آپ کی ملاقات ہوتی تو بہت سخاوت کرتے۔ اور حضرت جبریل رمضان المبارک میں ہر رات آپ سے ملاقات کرتے اور آپ ان کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرماتے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ صدقہ کرنے میں کھلی (تیز) ہوا سے بھی زیادہ تیز رفتار ہوتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کا عنوان سے تعلق اس طرح ہے کہ پہلی حدیث میں نزول وحی کی جگہ کا تعین تھا کہ وحی کا آغاز غارحرا میں ہوا اور اس حدیث میں ابتدائے وحی کا وقت بتایا گیا ہے کہ وہ ماہ رمضان المبارک ہے۔ اس سے وحی کی عظمت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ کسی معمولی چیز کے لیے زمان ومکان کا تعین نہیں کیا جاتا بلکہ اس قسم کا اہتمام کسی اہم اور بلند پایہ چیز ہی کے لیے کیا جاتا ہے۔ 2۔ سخاوت کسی کے سوال کرنے پر دل کے نرم ہونے کی وجہ سے کوئی چیز دینے کا نام ہے جبکہ (جُود) کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز جس کے لیے مناسب ہو، اس کے مانگے بغیر ہی اسے دے د ینا۔ بعض نے اس کا فرق یہ کیا ہے کہ سخاوت کا مطلب کچھ دے دینا اور کچھ اپنے لیے رکھ لینا ہے جبکہ جود کے معنی یہ ہیں کہ زیادہ دے دینا اورتھوڑا بہت اپنے لیے رکھنا۔ (الفروق اللغوية، ص: 196) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی (أَجْوَدَ النَّاسِ) تھے کیونکہ یہ ہر شخص کو وہی کچھ دیتے جو اس کے مناسب حال ہوتا، چنانچہ فقیروں کو مال دیتے، تشنگان علوم کی علمی پیاس بجھاتے اور گم کردہ راہوں کو سیدھا راستہ دکھاتے الغرض حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کے جُود کے تین درجے تھے: (الف) ۔ عام طور پر بھی آپ تمام لوگوں سے زیادہ صاحب جودوسخا تھے۔ (ب) ۔ رمضان المبارک میں یہ جودوکرم اور بڑھ جاتا تھا۔ (ج) ۔ رمضان کی راتیں مذید اس شان جودوکرم میں اضافے کا باعث ہوتیں جبکہ آپ جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات فرماتے۔ اس دوران میں کسی سائل کو تہی دامن اور مایوس واپس نہ کرتے حتیٰ کہ اگر قرض بھی لینا پڑتا تو بھی خیرات کا فیض عام جاری رکھنے کے لیے ایسا کرگزرتے تھے۔ 3۔ (الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ) اس ہوا کو کہتے ہیں۔ جوبڑی تیز چلتی ہے اور بارش کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جودوسخا کو اس قسم کی بارش لانے والی ہوا سے تشبیہ دی گئی ہے جو کہ بہت ہی مناسب ہے، چنانچہ جس طرح باران رحمت سے بنجر اور بے آباد زمین سرسبزوشاداب ہو جاتی ہے اسی طرح آپ کے جودوسخا سے بنی نوع انسان کی اجڑی ہوئی دنیا آباد ہوئی اور ہر طرف رشد و ہدایت کے دریا موج زن ہوئے۔ الغرض آپ کے روحانی کمالات سے تمام کائنات فیض یاب ہوئی اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ 4۔ اس حدیث میں سخاوت کے متعلق شوق دلایا گیا ہے، خاص طور پر رمضان المبارک میں دل کھول کراپنا مال خرچ کرنا چاہیے، نیز جب نیکو کار اوراہل خیر سے ملاقات ہو تو بھی فیاضی اوردریا دلی کا مظاہرہ کرناچاہیے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنی چاہیے اور یہ تلاوت تمام اوراد و اذکار سے افضل اوراعلیٰ ہے۔ (فتح الباري: 1؍31) 5۔ (مُدَارَسَه) یہ ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام رمضان میں نازل شدہ قرآن پڑھتےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سنتے، پھر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت فرماتے اور حضرت جبریل علیہ السلام اس کا سماع فرماتے۔ گویا باری باری قرآن مجید پڑھتے جسے ہمارے ہاں دَور کرنا کہا جاتا ہے۔ آخری سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام سے دومرتبہ دور کیا تاکہ مجموعی طور پر پورے قرآن کی یاد دہانی ہوجائے، نیز یاد رہے کہ یہ آخری دور اسی ترتیب سے ہوا تھا جس ترتیب سے آج ہمارے ہاں قرآن موجود ہے کیونکہ اس آخری دور کے وقت حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے۔ انھوں نے بعد میں اسی ترتیب سے لکھا جس ترتیب سے انھوں نے سنا تھا۔ واضح رہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ترتیب نزولی کے مطابق قرآن جمع کیا تھا اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ترتیب ان کےعلاوہ ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1902
1902. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ خیر کی سخاوت کرنے والے ہوتے تھے۔ اور سب سے زیادہ آپ کی سخاوت ماہ رمضان میں ہوتی تھی جبکہ حضرت جبرئیل ؑ سے آپ کی ملاقات ہوتی تھی۔ حضرت جبرئیل ؑ رمضان المبارک کے ختم ہونے تک ہر رات آپ سے ملاقات کرتے، نبی کریم ﷺ ان سے قرآن مجید کا دور فرماتے، جس وقت آپ ﷺ سے حضرت جبرئیل ؑ کی ملاقات ہوتی تو آپ کھلی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1902]
حدیث حاشیہ: (1) عربی زبان میں "جود" اور "سخا" کا فرق یہ ہے کہ سخاوت کرتے وقت انسان اپنے اہل و عیال کا بھی خیال رکھتا ہے جبکہ جود فرماتے تھے۔ ماہ رمضان میں اس لیے زیادہ سخاوت کرتے کہ اس میں ثواب دوچند ہو جاتا ہے اور اس میں اعلیٰ عبادت، یعنی روزے رکھنے کا اہتمام ہوتا ہے، اس کے علاوہ اس میں شب قدر بھی ہے، نیز اس لیے بھی زیادہ سخاوت کرتے کہ اس میں حضرت جبرئیل ؑ سے آپ کی ملاقات ہوتی۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب بزرگان دین کسی کے گھر آئیں تو دل کھول کر سخاوت کرنی چاہیے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا۔ (عمدةالقاري: 33/8)(4) کھلی ہوا سے مراد بارش سے قبل آنے والی ہوا ہے جسے اللہ تعالیٰ بارش برسانے کے لیے چھوڑتا ہے۔ جب بارش برستی ہے تو زمین کے ہر خطے کو اس سے فائدہ ہوتا ہے، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی جودوسخا سے ہر فقیر و تنگ دست اور غنی و مالدار کو فائدہ پہنچتا تھا۔ کھلی ہوا سے تشبیہ دینے کا یہی مقصد ہے۔ (فتح الباري: 150/4) واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1902
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3220
3220. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور آپ بہت زیادہ سخاوت رمضان المبارک میں کرتے تھے جبکہ آپ سے حضرت جبرئیل ؑ ملاقات کرتے تھے۔ اور وہ رمضان المبارک میں ہر رات آپ سے ملاقات کرتے اور آپ سے قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے۔ اور جب حضرت جبرئیل ؑ آپ سے ملاقات کرتے تو آپ صدقہ وخیرات کرنے میں کھلی تیز ہوا (تیز آندھی) سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔ حضرت معمر نے بھی اپنی سند سے اسی طرح بیان کیا ہے، نیز حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ آپ سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3220]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت فاطمہ ؓ کی روایت کو امام بخاری ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں رازداری کے طور پرفرمایا: ”میرے ساتھ حضرت جبرئیل علیہ السلام ہر سال قرآن مجید کا دور کرتے تھے اور اس سال انھوں نے دومرتبہ دور کیا ہے۔ میراخیال ہے کہ میر ی وفات کا وقت آچکا ہے۔ “(صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3624) حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں ہے: جس سال رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کے ساتھ حضرت جبریل ؑ نے دومرتبہ دور کیا۔ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 4996) 2۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصد حضرت جبریل ؑ کے وجود اور ان کی کارکردگی کو ثابت کرنا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3220
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3554
3554. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے۔ اور رمضان المبارک میں تو آپ بہت زیادہ سخاوت کرتے تھےجب آپ سے حضرت جبرئیل ؑ ملاقات کرتے تھے۔ اور وہ رمضان میں ہر رات آپ سے ملاقات کرتے اور آپ کے ساتھ قرآن کریم کا دور کرتے تھے۔ بے شک رسول اللہ ﷺ خیرو بھلائی کے ہرمعاملے میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3554]
حدیث حاشیہ: 1۔ حافظ ابن حجر ؒنے لکھا ہے کہ اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت سخاوت کو بیان کرنا مقصود ہے۔ (فتح الباري: 701/6) ہمارارجحان یہ ہے کہ اس حدیث سے ایک اشکال کا ازالہ مقصود ہے اور وہ یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے طبعی طور پر خوشبوآتی تھی اگرچہ آپ نے خوشبو نہ بھی استعمال کی ہوتی،تو اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوشبو کیوں استعمال کرتے تھے؟امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ روایت لاکربتانا چاہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی فرشتوں سے ملاقات ہوتی رہتی تھی،خاص طور پر فرشتہ وحی حضرت جبرئیل ؑ کے ساتھ ملاقات کا سلسلہ بکثرت جاری رہتا تھا۔ اس کے علاوہ آپ کی مبارک مجلس میں لوگ کثرت سے حاضر رہتے تھے۔ اس ماحول کو پاکیزہ اور معطر رکھنے کے لیے آپ طبعی خوشبو کے علاوہ خود ساختہ خوشبو بھی بکثرت استعمال کرتے تھے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3554